آئی اے گلعذار کیا کہنا
Appearance
آئی اے گلعذار کیا کہنا
خوب آئی بہار کیا کہنا
مہندی مل کر ہے چوٹ مرجاں پر
ہاتھ لالہ نگار کیا کہنا
مجھ سے عاشق کے اور یوں نفریں
واہ شاباش یار کیا کہنا
برق بھی درکنار رہ جائے
ہاں دل بے قرار کیا کہنا
لاکھ بار امتحان عشق کیا
نہ کہا ایک بار کیا کہنا
بحث گریہ میں ابر بول گیا
دیدۂ اشک بار کیا کہنا
میں تو روتا ہوں آپ ہنستے ہیں
یہی ہوتا ہے یار کیا کہنا
سختیٔ عشق جھیل لے اے دل
واہ رے بردبار کیا کہنا
مر گئے ہم مگر نہ رحم آیا
وہی تیور ہیں یار کیا کہنا
خار خار غم دل پر درد
چیخ کر اے ہزار کیا کہنا
کہہ تو للکار لیں رقیبوں کو
بات رکھ لی نگار کیا کہنا
جوش الفت میں اور ضبط اے دل
جبر پر اختیار کیا کہنا
یوں تو جو گل ہے خوب ہے لیکن
تیرا اے گلعذار کیا کہنا
اے صباؔ دعویٔ انا الحق ہے
خوب سوچے ہو یار کیا کہنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |