آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
Appearance
آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
منہ کھول دو نقاب کیا ہے
سینے میں ٹھہرتا ہی نہیں دل
یارب اسے اضطراب کیا ہے
کل تیغ نکال مجھ سے بولا
تو دیکھ تو اس کی آب کیا ہے
معلوم نہیں کہ اپنا دیواں
ہے مرثیہ یا کتاب کیا ہے
جو مر گئے مارے لطف ہی کے
پھر ان پہ میاں عتاب کیا ہے
اوروں سے تو ہے یہ بے حجابی
مجھ سے ہی تجھے حجاب کیا ہے
اے مصحفیؔ اٹھ یہ دھوپ آئی
اتنا بھی دوانے خواب کیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |