آب حیات/مِیر بَبر علی انیس
لکھنؤ میں تعلیم و تربیت (مولوی حیدر علی صاحب منتہی الکلام انہی کے محلہ میں رہتے تھے اور پڑھایا کرتے تھے۔ میر انیسؔ مرحوم فرماتے تھے کہ ابتدائی کتابیں میں نے انھیں سے پڑھی تھیں۔) پائی اور ضروریاتِ فن سے آگاہی حاصل کی۔ اپنے خاندانی کمال میں باپ کے شاگرد تھے۔ اور جس طرح عمر میں دونوں بھائیوں سے بڑے تھے، اسی طرح کمال میں بھی فائق تھے، ابتدا میں اُنھیں بھی غزل کا شوق تھا، ایک موقع پر کہیں مشاعرہ میں گئے اور غزل پڑھی، وہاں بڑی تعریف ہوئی۔ شفیق باپ خبر سُن کر دل میں باغ باغ ہوا، مگرہونہار فرزند سے پوچھا کہ کل رات کو کہاں گئے تھے؟ انھوں نے حال بیان کیا، غزل سنی، اور فرمایا کہ بھائی! اب اس غزل کو سلام کرو اور اس شغل میں زور طبع کو صرف کرو جو دین و دنیا کا سرمایہ ہے، سعادت مند بیٹے نے اُسی دن سے اُدھر سے قطع نظر کی۔ غزل مذکور کی طرح میں سلام لکھا، دنیا کو چھوڑ کر دین کے دائرہ میں آ گئے اور تمام عمر اسی میں صرف کر دی۔نیک نیتی کی برکت نے اسی میں دین بھی دیا اور دنیا بھی۔ اس وقت تک یہ اور ان کے ہم عصر اپنے اُستادوں کی اطاعت کو اطاعت سمجھتے تھے، سلام، مرثیے، نوحے، رباعیاں کہتے تھے اور مرثیہ کی مقدار ۳۵، ۴۰ اور ۵۰ بند تک تھی۔
زمانہ کی خاصیت طبعی ہے کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو اُنھیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتا ہے۔ میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کو بڑھاپے کے پلنگ پر بٹھایا، میر انیسؔ کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی، ادھر سے مرزا دبیر اُن کے مقابلے کے لئے نکلے، یہ خاندانی شاعر نہ تھے، مگر ضمیرؔ کے شاگرد رشید تھے، جب دونوں نوجوان میدان مجالس میں جولانیاں کرنے لگے تو فن مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اُٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینھ برسنے لگے۔ بڑی بات یہ تھی کہ بادشاہ سے لے کر امراء اور غرباء تک شیعہ مذہب رکھتے تھے۔ نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدردان ملے، وہ بزرگوں کے شمار سے زیادہ اور وزن میں بہت بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو! قدردانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی بلکہ نقد و جسن کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے، ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی سے اُمید زیادہ بڑھ گئی۔ دونوں باکمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون، ہر قسم کے خیال، ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایسا طلسم باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رُلا دیں چاہیں ہنسا دیں، چاہیں تو حیرت کی مورت بنا دیں۔
یہ دعوے بالکل درست تھے۔ کیونکہ مشاہدہ ان کی تصدیق کو ہر وقت حاضر رہتا تھا۔ دلیل کی حاجت نہ تھی، سکندر نامہ جس کی تعریف میں لوگوں کے لب خشک ہیں۔ اس میں چند میدان جنگ ہیں۔ رزم زنگبار، جنگ دارا، جنگ روس، جنگ فور، جنگ فغور، اسی طرح بزم کی چند تمہیدیں اور جشن میں شاہنامہ کے ۶۰ ہزار شعر فردوسی کی عمر بھر کی کمائی ہیں۔ انھوں نے ایجاد مضامین کے دریا بہا دیئے، ایک مقرری مضمون کو سیکڑوں نہیں ہزاروں رنگ سے ادا کیا۔ ہر مرثیہ کا چہرہ نیا، آمد نئی، رزم جدا، بزم جدا اور ہر میدان میں مضمون اچھوتا۔ تلوار نئی، نیزہ نیا، گھوڑا نیا، انداز نیا، مقابلہ نیا، اور اس پر کیا منحصر ہے، صبح کا عالم دیکھو تو سبحان اللہ، رات کی رخصت، سیاہی کا پھٹنا، نور کا ظہور، آفتاب کا طلوع، مرغزار کی بہار، شام ہے تو شام غریباں کی اُداسی، کبھی رات کا سنّاٹا، کبھی تاروں کی چھاؤں کو چاندنی اور اور اندھیرے کے ساتھ رنگ رنگ سے دکھایا ہے، غرض جس حالت کو لیا ہے، اس سماں باندھ دیا ہے، آمد مضامین کی بھی انتہا نہ رہی، جن مرثیوں کے بند ۴۰، ۵۰ سے زیادہ نہ ہوتے تھے وہ ایک سو پچاس (۱۵۰) سے گزر کر دو سو (۲۰۰) سے بھی نکل گئے۔ میر صاحب مرحوم نے کم سے کم دس ہزار مرثیہ ضرور کہا ہو گا اور سلاموں کا کیا شمار ہے، رباعیاں تو باتیں تھیں۔
دونوں اُستادوں کے ساتھ طرفداروں کے دو (۲) جتھے ہو گئے، ایک انیسئے کہلاتے تھے، ایک دبیرئیے، اگرچہ ان کے فضول فقروں اور اعتراضوں نے بے جا تکراریں اور جھگڑے پیدا کئے، مگر بہ نسبت نقصان کے فائدہ زیادہ ہوا، کیونکہ بے حد تعریفوں نے دونوں اُستادوں کے فکروں کو شوق ایجاد اور مشق پرواز میں عرش سے بھی اونچا اُچھالدیا۔ دونوں امتیں جو اپنے دعووں پر دلیلیں پیش کرتی تھیں، کوئی وزن میں زیادہ ہوتی تھیں، کوئی مساحت میں۔ اس لئے یک طرفی فیصلہ نہ ہوتا تھا۔
انیسی اُمّت : اپنے سخن آفریں کی صفائی کلام، حسن بیان اور لطف محاورہ پیش کر کے نظیر کی طلبگار ہوتی تھی۔
دبیری اُمّت : شوکتِ الفاظ، بلند پروازی اور تازگئی مضامین کو مقابلہ میں حاضر کرتی تھی۔
انیسی اُمت کہتی تھی کہ جسے تم فخر کا سرمایہ سمجھتے ہو، یہ باتیں دربارِ فصاحب میں نامقبول ہو کر خارج ہو چکی ہیں کہ فقط کوہ کندن اور کاہ برآوردن ہے۔ دبیری اُمت کہتی تھی کہ تم اسے دشواری کہتے ہو، یہ علم کے جوہر ہیں، اسے بلاغت کہتے ہیں۔ تمھارے سخن آفریں کے بازؤں میں علم کی طاقت ہو، تو پہاڑوں کو چیرے اور یہ جواہر نکالے۔ انیسؔ کے کلام میں ہے کیا؟ فقط زبانی باتوں کا جمع خرچ ہے۔
انیسی اُمّت اس بات پر چمک اُٹھتی تھی اور کہتی تھی کہ کون سا خیال تمھارے سخن آفریں کا ہے جو ہمارے معنی آفریں کے ہاں نہیں؟ نہیں جانتے! جسے باتوں کا جمع خرچ کہتے ہو، یہ صفائی کلام اور قدرت بیان کی خوبی ہے! اسے سہل ممتنع کہتے ہیں، یہ جوہر خداداد ہے، کتابیں پڑھنے اور کاغذ سیاہ کرنے سے نہیں آتا۔
دبیرئیے اس تقریر کو سن کر کسی مرثیہ کی تمہید یا میدان کی آمد یا رجز خوانی کے بند پڑھنے شروع کر دیتے، جن میں اکثر آیتوں یا حدیثوں کے فقرے تضمین ہوتے تھے۔
انیسئے کہتے تھے۔ اس سے کس کافر کو انکار ہے مگر اتنا ہی پڑھیے گا، آگے نہ بڑھئے گا، دوسرے مطلب کی طرف انتقال کیجیے گا تو سلسلہ میں ربط بھی نصیب نہ ہو گا۔ حضرت! فقط لفاظی کی دھوم دھام سے کچھ نہیں ہوتا، ادائے مطلب اصل شے ہے، اس پر گفتگو کیجیے گا تو پوری بات بھی نہ ہو سکے گی۔ یہ قادر الکلام باکمالوں کا کام ہے جن کو اس فن کے اصول بزرگوں سے سینہ بہ سینہ ہیں۔ وہی اس کام کو جانتے ہیں۔
دبیرئیے اس کے جواب میں اپنے سخن آفریں کی آمد طبیعت مضامین کا وفور لفظوں کی بہتات دکھاتے تھے اور جا و بےجا کہتے جاتے تھے کہ دیکھیے کیا محاورہ ہے! دیکھیے صاف بول چال ہے، ساتھ اس کے یہ بھی کہتے تھے کہ کس کا منھ ہے، جو رات کو بیٹھے اور سو (۱۰۰) بند کہہ کر اُٹھے؟ برس دن تک خامہ فرسائی کی اور محرم پر ۱۰، ۱۵ مرثیے لکھ کر تیار کئے تو کیا کئے، وہ بھی دو اور بھائیوں کے مشورے ملا کر اور مباحثوں کے پسینے بہا کر۔
انیسئے کہتے تھے درست ہے جو رات بھر میں سو (۱۰۰) بند کہتے ہیں، وہ بے ربط اور بے اصول ہی ہوتے ہیں اور جب ادائے مطلب پر آتے ہیں تو اتنے بھی نہیں رہتے، ساتھ اس کے بعض مصرع بھی پڑھ دیتے تھے جن پر بے محاورہ ہونے کا اعتراض ہوتا تھا یا تشبیہیں ناقص ہوتی تھیں یا استعارے بے ڈھنگے ہوتے تھے۔
اعتراضوں کی ردّ و بدل یہاں تک ہوتی تھی کہ دبیرئیے کہتے تھے کہ جو قبولیت خدا نے ہمارے سخن آفریں کو عطا کی ہے، کب کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ جس مجلس میں ان کا کلام پڑھا گیا، کہرام ہو گیا، کیسے غم انگیز اور درہ خیز مضامین ہیں، اِن کے لفظوں کو دیکھو، اعتقاد کے آب حیات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
انیسئے کہتے تھے، وہ کیا پڑھیں گے، ان کی آواز تو دیکھئے اور انھیں مرثیہ پڑھنا تو آتا ہی نہیں، غرض جھگڑالو دعویداروں کو کوئی تقریر خاموش نہ کر سکتی تھی، البتہ مجبوری کہ دونوں کے گلے تھکا کر آوازیں بند کر دیتی تھی اور منصفی بیچ میں آ کر کہتی تھی، دونوں اچھے، دونوں اچھے، کبھی کہتی وہ آفتاب ہیں، یہ ماہ، کبھی یہ آفتاب وہ ماہ!
لکھنؤ کے بے فکرے بڑانے میں کمال رکھتے تھے اور تماشے کے عاشق، دبیرؔ تو غیر تھے، بھائی کو بھائی سے لڑا دیا۔ مدت تک بگڑی رہی۔ میر انیسؔ کے پاس آتے تو کہتے، حضور جب تک اصلاحی مرثیئے میں پڑھے جائیں جس دن آپ کا بِن دیکھا مرثیہ پرھا، قلعی کھل جائے گی۔
دوسرے بھائی سے کہتے، حضور عمر کی بزرگی اور شے ہے، لطف زبان اور شے ہے۔ یہ نعمت آپ کا حصّہ ہے۔
الغرض یہ پاک روحیں جن کی بدولت ہماری نظم کو قوت اور زبان کو وسعت حاصل ہوئی، صلہ ان کا سخن آفرین حقیقی عطا کرے۔ ہمارے شکریہ کی کیا بساط ہے، لیکن یہ بات جتانے کے قابل ہے کہ اقلیم سخن میں جو دائرہ اِن کے زیر قلم تھا، ان کے جوش طبع میں اس کا بہت سا حصّہ سخن آرائی اور رزم بزم نے دبا لیا، مرثیت کا میدان بہت تنگ رہ گیا اور افسوس کہ اصل مدعا ان کا وہی تھا جسے آپ کھو بیٹھے۔
جب تک لکھنؤ آباد رہا، جب کسی اور شہر میں جانے کا ذکر ہوتا تو دونوں صاحب یہی فرماتے تھے کہ اس کلام کو اسی شہر کے لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ اور کوئی اس کی قدر کیا جانے گا اور ہماری زبان کے لطف کو کیا سمجھے گا، لیکن تباہی لکھنؤ کے بعد اول ۱۸۵۸ء میں مرزا دبیر صاحب مرشد آباد بلائے گئے، وہ گئے اور ہمیشہ الہ آباد اور بنارس میں جاتے رہے۔ میر انیسؔ مرحوم اول ۱۸۵۹ء اور پھر ۱۸۶۰ء میں نواب قاسم علیخاں کی طلب اور اصرار سے عظیم آباد بھی جاتے رہے، پھر ۱۸۷۱ ء میں جب کہ ارسطو جاہ غفراں پناہ کے خلف الرشید مولوی سید شریف حسین خاں صاحب حیدر آباد میں تھے، تو ان کی تحریک سے نواب تہور جنگ بہادر نے میر انیسؔ کو طلب فرمایا، اب بھی ان کی پابندی وضع انھیں نکلنے نہ دیتی تھی، مگر مولوی صاحب موصوف کے کہنے کو بھی تھے، کہیں سے آم آئے چونکہ عمدہ تھے، مولوی صاحب ممدوح نے طاسوں میں پانی بھروا کر رکھ دیئے اور سب صاحبوں کو متوجہ فرمایا۔ ایک حکیم صاحب اسی جلسہ میں حرارت کی شکایت کر رہے تھے مگر شریک چاشنی ہوئے۔ کسی بزرگ نے کہا، حکیم صاحب! آپ تو ابھی علالت کی شکایت فرماتے تھے، حکیم صاحب تو بغلیں جھانکنے لگے۔ میر انیس نے فرمایا۔ فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ۔
جس طرح ان کا کلام لاجواب دیکھتے ہو، اسی طرح اُن کا پرھنا بھی بے مثال ہی تھا، ان کی آواز، ان کا قد و قامت، ان کی صورت کا انداز، غرض ہر شے اِس کام کے لئے تھیک اور موزوں واقع ہوئی تھی۔ ان کا اور ان کے بھائیوں کا بھی قاعدہ تھا کہ ایک بڑا آئینہ سامنے رکھ کر خلوت میں بیٹھتے تھے اور مرثیہ پڑھنے کی مشق کرتے تھے، وضع، حرکات سکنات اور بات بات کو دیکھتے تھے اور آپ اس کی موزونی اور ناموزونی کی اصلاح دیتے تھے، ذوقؔ :
بنا کے آئینہ دیکھے ہے پہلے آئینہ گر
سبز در اپنے بھی عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں
یہ بات درست ہے کہ مرزا دبیرؔ کے پڑھنے میں وہ خوش ادائی نہ تھی لیکن حُسن قبول اور فیض تاثیر خدا نے دیا تھا ان کا مرثیہ کوئی اور بھی پڑھتا تھا تو اکثر رونے رُلانے میں کامیاب ہوتا تھا کہ یہی اس کام کی علت غائی ہے۔