آب حیات/میر ضاحک
میر مرحوم کو سوداؔ کے دیوان میں بہت مداخلت ہے اور انکے سلسلہ اولاد میں بھی ایسے عالی رتبہ باکمال پیدا ہوئے کہ خود صاحب طرز کہلائے۔ اس لئے ابتداء سے دل چاہتا تھا کہ اس خانوادہ سیادت کا سلسلہ لکھوں، مگر پھول نہ ہاتھ آئے جو لڑی پُروتا۔ اسی واسطے طبع اول میں مقصر با، بے درد، بے انصاف اصول فن سے بے خبر ہیں۔ کیا جانیں انھیں اپنے مضامین اخباروں میں چمکانے کے لئے روشنائی ہاتھ آئی۔ جہاں اور شکائتیں چھاپیں، ان میں ایک نمبر شمار یہ بھی بڑھایا۔ راقم آثم نے اطراف مشرقی اور خاص لکھنؤ میں بھی احباب کو لکھا، کہیں سے آواز نہ آئی، البتہ مولوی غلام محمد خاں تپشؔ نے اس شفقت کے ساتھ جواب یاس دیا کہ دل مشقت تلاش سے رہا ہو گیا۔ اب کہ طبع ثانی کا موقع ہے۔ آرزوئے قدیم پھر دل میں لہرائی، ناچار برسوں کے سُوکھے مرجھائے پھول جو دل افسردہ کے طاق میں پڑے تھے، انہی کا سہرہ بنا کر ساداتِ عظام کے روضوں پر چڑھاتا ہوں اور جس ابتدا تک دست آگاہی نے رسائی کی وہاں سے شروع کرتا ہوں۔
میر ضاحک مرحوم کا نام سید غلام حسین تھا۔ ان کے بزرگ ہرات سے آ کر پرانی دلی میں آباد ہوئے (صاحب تذکرہ گلزار ابراہیمی میر حسن مرحوم کے حال میں لکھتے ہیں کہ دلی میں بہجل مسجد کے پاس رہتے تھے اور حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ میر مرحوم کی ولادت محلہ سید واڑہ میں ہوئی کہ پرانی دلی میں ایک محلہ تھا۔) خاندان سیادت ان کا سَنَدی تھی۔ امامی ہردی کی اولاد میں تھے، اور شاعری بھی گھرانے میں میراث چلی آتی تھی۔ میر موصوف نہایت خوش طبع شگفتہ مزاج، خندہ جبیں ہنسنے اور ہنسانے والے تھے۔ اسی واسطے یہ تخلص اختیار کیا تھا، وضع اور لباس قدمائے دہلی کا پورا نمونہ تھا۔ سر پر سبز عمامہ بوضع عرب، بڑے گھیر کا پاجامہ یا جُبہ کہ وہ بھی اکثر سبز ہوتا تھا، گلے میں خاک پاک کا کنغھا، داہنے ہاتھ میں ایک چوڑی، اس میں کچھ کچھ دعائیں کندہ، چھنگلی بلکہ اور انگلیوں میں بھی کئی انگوٹھیاں، داڑھی کو مہندی لگاتے تھے۔ بہت بڑی نہ تھی، مگر ریش بچہ منڈاتے تھے۔ کبھی کبھی ہاتھوں میں بھی مہندی ملتے تھے۔
میانہ قد، رنگ گورا۔
دیوان : دیوان اب تک نظر سے نہیں گذرا، جس پر کچھ رائے ظاہر کی جائے۔ خواص میں جو کچھ شہرت ہے، ان ہجوؤں کی بدولت ہے جو سوداؔ نے ان کے حق میں کہیں۔ سلطنت کی تباہی نے ان سے بھی دلی چھڑوائی اور فیض آباد کو آباد کیا۔
سوداؔ نے جو ان کے حق میں گستاخی کی ہے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اول کسی موقع پر انھوں نے سودا کے حق میں کچھ فرمایا، سوداؔ ان کے پاس گئے اور کہا کہ اپ بزرگ میں خورد، آپ سید، میں آپ کے جد کا غلام، عاصی اس قابل نہیں کہ آپ اس کے حق میں کچھ ارشاد فرمائیں، ایسا نہ کیجیے کہ مجھ گنہگار کے منہ سے کچھ نکل جائے۔ اور قیامت کے دن آپ کے جد کے سامنے روسیاہ ہوں۔ تلامیذ الہٰی کے دماغ عالی ہوتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا کہ نہیں بھئی یہ شاعری ہے، اس میں خوردی و بزرگی کیا، سودا آئیں تو کہا جائیں، پھر جو کچھ انھوں نے کہا، خدا نہ سنوائے، یہ بھی بزرگوں سے سُنا کہ مرزا نے جو کچھ ان کی جناب میں یاوہ گوئی کی ہے، میر موصوف نے اس سے زیادہ خراب و خوار کیا تھا۔ لیکن وہ کلام عجیب طرح سے فنا ہوا۔
میر حسن مرحوم ان کے صاحبزادے سودا کے شاگرد تھے۔ میر ضاحک کا انتقال ہوا تو سوداؔ فاتحہ کے لئے گئے اور دیوان اپنا ساتھ لیتے گئے۔ بعد رسم عزا پُرسی کے اپنی یاوہ گوئی پر جو کہ اس مرحوم کے حق میں کی تھی۔ بہت سے عذر ککئے اور کہا کہ سید مرحوم نے دنیا سے انتقال فرمایا، تم فرزند ہو جو کچھ اس روسیاہ سے گستاخی ہوئی معاف کرو۔ بعد اس کے نوکر سے دیوان منگا کر جو ہجوئیں ان کی کہی تھیں سب چاک کر ڈالیں۔ میر حسن نے بمقتضائے علو حوصلہ و سعادت مندی اسی وقت دیوان باپ کا گھر سے منگایا اور جو ہجوئیں ان کی تھیں وہ پھاڑ ڈالیں۔ لیکن چونکہ سودا کی تصنیف قلم سے نکلتے ہی بچہ بچہ کی زبان پر پھیل جاتی تھی، اس لئے سب قائم رہیں۔ ان کا کلام کہ اسی مجلد کے اندر تھا مفقود ہو گیا۔ سودا کے دیوان میں میر ضاحک مرحوم کی یہ ہجو جب دیکھتا تھا :
مصرعہ : یا رب یہ دعا مانگتا ہے تجھ سے سکندر
تو حیران ہوتا تھا کہ سکندر کا یہاں کیا کام؟ میر مہدی حسن فراغؔ کو خدا مغفرت کرے (میر مہدی حسن فراغؔ ایک کہن سال شخص سید انشاء کے خاندان سے تھے۔ میاں بیتاب کے شاگرد تھے۔ فارسی کی استعداد اچھی تھی اور اردو شعر بھی کہتے تھے اور رموز سخن کے ماہر تھے۔ ناسخ و آتش کے مشاعرے اچھی طرح دیکھے تھے اور عملائے لکھنؤ کی صحبتوں میں بیٹھے تھے۔ انکے بزرگ اور وہ ہمیشہ سرکاروں میں داروغہ رہے تھے اس لئے قدیمی حالات اور خاندانی معاملات سے واقف تھے۔ بادشاہ بیگم یعنی نصیر الدین حیدر کی والدہ اور ثریا جاہ چندی گڈھ میں تھے۔ جب ھی یہ اور انکے بھائی انکے ہاں داروغہ تھے اور مرزا سکندر شکوہ کی سرکار میں بھی داروغہ رہے تھے، میاں بحر کے قدیمی دوست اور ہم مشق تھے۔) انھوں نے بیان کیا کہ ایک دن حسب معمول مرزا سلیمان شکوہ کے ہاں پائیں باغ میں تخت بچھے تھے، صاحب عالم خود مسند پر بیٹھے تھے، شرفاء و شعراء کا مجمع تھا۔ مرزا رفیع اور میاں سکندر مرثیہ گو بھی موجود تھے کہ مرزا صاحب تشریف لائے۔ ان کی پرانی وضع اور لباس پر کہ ان دنوں بھی انگشت نما تھی، صاحب عالم مسکرائے، میر صاحب آ کر بیٹھے، مزاج پرسی ہوئی۔ حقہ سامنے آیا۔ اتفاقاً صاحب عالم نے مرزا رفیع سے کہا کہ کچھ ارشاد فرمائیے (دونوں صاحبوں کے معاملات تو انھیں معلوم ہی تھے۔ خدا جانے چھیڑ منظور تھی (یا اتفاقاً زبان سے نکلا) سوداؔ نے کہا کہ میں نے تو ان دنوں میں کچھ کہا نہیں، میاں سکندر کی طرف اشارہ کیا کہ انھوں نے ایک مخمس کہا ہے، صاحب عالم نے فرمایا۔ کیا؟ سوداؔ نے پہلا ہی بند پڑھا تھا کہ میر ضاحکؔ مرحوم اٹھ کر میاں سکندر سے دست و گریبان ہو گئے۔ سکندر بچارے حیران کہ نہ واسطہ نہ سبب، یہ کیا آفت آ گئی۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں صاحبان کو الگ کیا۔ اور سوداؔ کو دیکھیے تو کنارے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ (یہ شان نزول ہے اس مخمس کی)۔
ہر چند چاہا کہ ان کے جلسے اور باہمی گفتگوؤں کے لطائف و ظرائف معلوم ہوں۔ کچھ نہ ہو تو چند غزلیں ہی پوری مل جائیں، کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ جب ان کے چراغ خاندان سید خورشید علی نفیس شواع توجہ سے دریغ فرمائیں تو غیروں سے کیا امید ہو۔ انھوں نے آزاد خاکسار کو آب حیات کی رو سے شاداب نہ کیا۔
تشنہ بودم زدم تیغ جو آبم دادند
دز جواب لب لعل تو جوابم دادند
تاریخ وفات بھی نہ معلوم ہوئی۔ ممکن نہیں کہ باکمال صاحزادہ نے تاریخ نہ کہی ہو مگر آزاد کو کون بتائے۔ صاحب تذکرہ گلزار ابراہیمی ۱۱۹۶ھ میں کہتے ہیں کہ فیض آباد میں ہیں اور دارستگی سے گزران کرتے ہیں۔
جس تذکرہ میں دیکھا ایک ہی شعر ان کا درج پایا :
کیا دیجئے اصلاح خدائی کو وگرنہ
کافی تھا ترا حُسن اگر ماہ نہ ہوتا