آب حیات/چوتھا دور/خاتمہ
اے فلک نہ یہ جلسہ برہم ہونے کے قابل تھا، نہ آج رات کا سماں صبح ہونے کے قابل تھا۔ پھر ایسے لوگ کہاں! اور ایسے زمانے کہاں! سیّد انشاء اور جراءت جیسے زندہ دل شوخ طبع باکمال کہاں سے آئیں گے۔ شیخ مصحفیؔ جیسے مشاق کیوں کر زندہ ہو جائیں گے۔ اور آئیں تو ایسے قدرداں کہاں! اچھے لوگ تھے کہ اچھا زمانہ پایا، اور اچھی گزار گئے۔ وہ جوش و خروش، وہ شوخیاں وہ چہنیں اب کہاں؟
گیا حُسن کوبان دل خواہ کا
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
میرا دل خدا جانے کس مٹی کا بنا ہے۔ کسی کی جدائی کا نام لیا یہ پگھل گیا، کسی عزیز کا ذکر کیا اس سے خون ٹپک پڑا اور سخت جانی دیکھو کہ نہ پانی ہو کر بہہ جاتا ہے نہ خاک ہو کر رہ جاتا ہے۔ تماشا یہ ہے کہ کتنے کتنے صدمے اٹھا چکا ہے، پھر بھی ہر داغ نیا ہی صدمہ دیتا ہے، مگر انصاف کرو۔ وہ عزیز بھی تو دیکھو، کیسے تھے اور کون تھے۔ عالم کے عزیز تھے۔ اور دل کے عزیز تھے۔ اپنی باتوں سے عزیز تھے۔ آزاد! بس رونا دھونا موقوف، اب آنسو پونچھ ڈالو، ادب کی آنکھیں کھولو اور سامنے نگاہ کرو۔