آج انکار نہ فرمائیے آپ
آج انکار نہ فرمائیے آپ
شب کی شب گھر مرے رہ جائیے آپ
جائیے گھر کو نہ گھبرائیے آپ
ہم نہ مر جائیں گے بس جائیے آپ
کھول دو شوق سے بند انگیا کے
لیٹ کر ساتھ نہ شرمائیے آپ
آتے ہی کہتے ہو میں جاؤں گا
میں بھی آنے کا نہیں جائیے آپ
ڈھونڈھتے پھریے اگر لے کے چراغ
مجھ سا عاشق جو کہیں پائیے آپ
عمر بھر تو نہ قدم رنجہ کیا
آئیے اب تو نہ ترسائیے آپ
جان مشتاق لبوں پر آئی
کچھ وصیت ہے وہ سن جائیے آپ
دل سمجھتا نہیں مجھ سے ناصح
آپ سے سمجھے تو سمجھایئے آپ
سایہ ساں شوق میں افتاں خیزاں
ساتھ رہتا ہوں جدھر جائیے آپ
میں دکھاؤں جو جنوں کی ہے صفت
شان بے رحمی کی دکھلائیے آپ
ٹکڑے ٹکڑے میں گریباں کے کروں
پرزے پرزے مرے آڑائیے آپ
شاد ہو روح اگر بعد فنا
شمع و گل گور پہ بھجوائیے آپ
جان صدقے کروں کیا مال ہے جان
کاٹ دوں سر کو جو فرمائیے آپ
منہ پہ منہ رکھا تو بولے کیا خوب
پہلے منہ اپنا تو بنوایئے آپ
غیر کٹنے لگیں بندھ جائے ہوا
مجھ سے تکل اگر اڑوائیے آپ
نام تک لوں نہ کبھی ہوں وہ بشر
اب اگر حور بھی بن جائیے آپ
ہاتھ سے رندؔ کو کھوتے ہو عبث
کہیں ایسا نہ ہو پچھتائیے آپ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |