آخر نہ چلی کوئی بھی تدبیر ہماری
Appearance
آخر نہ چلی کوئی بھی تدبیر ہماری
بن بن کے بگڑنے لگی تقدیر ہماری
یہ عشق کے ہاتھوں ہوئی توقیر ہماری
بازاروں میں بکنے لگی تصویر ہماری
اس طرح کے دن رات دکھاتی ہے کرشمے
تقدیر پس پردۂ تدبیر ہماری
جلدی نہ کرو دھار ہے خنجر پہ ابھی تو
ہو لینے دو ثابت کوئی تقصیر ہماری
کچھ خون کی چھینٹیں کہیں اشکوں کی نمی ہے
جاتی ہے عجب شان سے تحریر ہماری
ہر سمت دہک اٹھتی ہے اک آگ جہاں میں
لو دیتی ہے جب رات کو زنجیر ہماری
بس ڈال لو چہرے پہ نقاب اپنے خدارا
بے ربط ہوئی جاتی ہے تقریر ہماری
یہ کہتے ہی بس مر گیا ناکام محبت
تم بھی نہ ہمارے ہوئے تقدیر ہماری
عالمؔ فلک تفرقہ پرداز کا ڈر ہے
بنتے ہی بگڑ جائے نہ تقدیر ہماری
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |