آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم
آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم
غیر منزل نہ پڑے راہ میں زنہار قدم
اٹھ گئے وصل کی شب پیشتر از یار قدم
آگے ہم عمر رواں سے بھی چلے چار قدم
کوئے مقصود سے یوں رکھتی ہے غفلت مجھے دور
جیسے سو جانے سے ہو جاتے ہیں بیکار قدم
اہل عالم میں ہوں میں زندوں میں مردوں کی طرح
بڑھ چلیں لاکھ مگر ساتھ ہیں دو چار قدم
ایک مدت سے رہ کعبہ میں آوارہ ہیں
کیا خدا کا مجھے دکھلائیں گے دیدار قدم
جوش وحشت میں بھی میں چڑھ کے نہ اس پر دوڑا
لے گئے حسرت خار سر دیوار قدم
صورت برگ خزاں جھڑتے ہیں ہر گام گناہ
جب اٹھاتے ہیں تری راہ میں زوار قدم
اے جنوں کوہ و بیابان بھی دکھلا مجھ کو
رہیں پستی و بلندی سے خبردار قدم
کوچہ گردی یہ شب و روز کی بے وجہ نہیں
ایڑیاں رگڑیں گے کس کے پس دیوار قدم
جادۂ راہ محبت کو خط مسطر جان
سر کے بل مثل قدم چل جو ہوں بیکار قدم
خاک بھی ہوں تو ہوں خاک در اس کا آتشؔ
جس کے تھے دوش پیمبر کے سزا وار قدم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |