آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
Appearance
آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا
سرگرم نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متصل بنا
جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سل بنا
جس تیرگی سے روز ہے عشاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرۂ خوباں پہ تل بنا
لب زندگی میں کب ملے اس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو متھ کرکے گل بنا
اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دل بنا
سن سن کے عرض حال مرا یار نے کہا
سوداؔ نہ باتیں بیٹھ کے یاں متصل بنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |