آرزو ہے وفا کرے کوئی
Appearance
آرزو ہے وفا کرے کوئی
جی نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
گر مرض ہو دوا کرے کوئی
مرنے والے کا کیا کرے کوئی
کوستے ہیں جلے ہوئے کیا کیا
اپنے حق میں دعا کرے کوئی
ان سے سب اپنی اپنی کہتے ہیں
میرا مطلب ادا کرے کوئی
چاہ سے آپ کو تو نفرت ہے
مجھ کو چاہے خدا کرے کوئی
اس گلے کو گلہ نہیں کہتے
گر مزے کا گلا کرے کوئی
یہ ملی داد رنج فرقت کی
اور دل کا کہا کرے کوئی
تم سراپا ہو صورت تصویر
تم سے پھر بات کیا کرے کوئی
کہتے ہیں ہم نہیں خدائے کریم
کیوں ہماری خطا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی
اس جفا پر تمہیں تمنا ہے
کہ مری التجا کرے کوئی
منہ لگاتے ہی داغؔ اترایا
لطف ہے پھر جفا کرے کوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |