آزمایا ہے مدام آپ کو بس بس اجی بس
Appearance
آزمایا ہے مدام آپ کو بس بس اجی بس
دونوں ہاتھوں سے سلام آپ کو بس بس اجی بس
آپ کی بندہ نوازی ہے جہاں میں مشہور
جانتا ہے یہ غلام آپ کو بس بس اجی بس
منہ نہ کھلوایئے میرا یوں ہی رہنے دیجے
یاد بھی ہے وہ کلام آپ کو بس بس اجی بس
ہم نے کل دیکھ لیا دیکھ لیا دیکھ لیا
کہیں جاتے سر شام آپ کو بس بس اجی بس
پیجیے خون جگر اپنا جناب زاہد
بادہ و ساغر و جام آپ کو بس بس اجی بس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |