آنسو تھمے جو رخ پہ وہ گیسو بکھر گیا
Appearance
آنسو تھمے جو رخ پہ وہ گیسو بکھر گیا
ملتے ہی دونوں وقت کے دریا ٹھہر گیا
اچھا ہوا شباب کا عالم گزر گیا
اک جن چڑھا ہوا مرے سر سے اتر گیا
یار آ کے خواب میں مجھے شرمندہ کر گیا
کیا سخت جان تھا کہ نہ فرقت میں مر گیا
عشاق کم سنی سے وہ کم سن حباب وار
جوبن نے جب کچوں کو ابھارا ابھر گیا
اے ہم سفیر بال فشانی کا ذکر کیا
تولا جو بازوؤں کو پروں کو کتر گیا
لوح مزار بھی جو بنائی وہ سنگ دل
پتھر کی سل تراش کے چھاتی پہ دھر گیا
مرنے پہ قبر بھی جو کھدی مہر کی طرح
میں بے نشان مثل نگیں نام کر گیا
بگڑا بناؤ کر کے جو وہ بت رقیب سے
فضل خدا سے کام ہمارا سنور گیا
کیا آبدارئ دم خنجر بیاں کروں
پانی کا گھونٹ تھا کہ گلے سے اتر گیا
سنتے ہیں جان ہجر میں عرشؔ حزیں نے دی
بھوکا وصال یار کا کچھ کھا کے مر گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |