آنکھوں سے خون اپنے یہ کہتا نہیں نہ جائے
Appearance
آنکھوں سے خون اپنے یہ کہتا نہیں نہ جائے
پر ساتھ اس کے لپٹا ہوا دل کہیں نہ جائے
اتنی تو چاہئے تجھے پاس شکستہ دل
جو آوے تیرے یاں سو وہ اندوہگیں نہ جائے
صبر و قرار و ہوش و خرد سب کے سب یہ جائیں
پر داغ عشق سینہ سے اے ہم نشیں نہ جائے
دیر و حرم میں جا کے جو چاہے پھر آ سکے
پر آوے جو گلی میں تری وہ کہیں نہ جائے
ہم گریہ ناک ہیں یہ سدا سے ہے عیب پوش
آنکھوں سے دور اپنے کہیں آستیں نہ جائے
ہے پارۂ عقیق جگر دیکھیو کہیں
اے چشم تیرے ہاتھ سے ایسا نگیں نہ جائے
نکلے نہ جان تن سے حسنؔ کی تو تب تلک
جب تک تو اس کے سر پہ دم واپسیں نہ جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |