آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
Appearance
آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں
یک قطرہ خوں بغل میں ہے دل مری سو اس کو
پلکوں سے تیری خاطر کیوں کر نچوڑ ڈالوں
وہ آہوئے رمیدہ مل جائے تیرہ شب گر
کتا بنوں شکاری اس کو بھنبھوڑ ڈالوں
خیاط نے قضا کے جامہ سیا جو میرا
آیا نہ جی میں اتنا کیا اس میں جوڑ ڈالوں
وہ سنگ دل ہوا ہے اک سنگ دل پہ عاشق
آتا ہے جی میں سر کو پتھروں سے پھوڑ ڈالوں
بیٹھا ہوں خالی آخر اے آنسوؤ کروں کیا
دو چار گوکھرو ہی لاؤ نہ موڑ ڈالوں
تقصیر مصحفیؔ کی ہووے معاف صاحب
فرماؤ تو تمہارے لا اس کو گوڑ ڈالوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |