آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں
Appearance
آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں
غنچہ کرے گلوں کو صبا گر میں بو کروں
آزردہ اس چمن میں ہوں مانند برگ خشک
چھیڑے جو ٹک نسیم مجھے سو غلو کروں
آنکھوں سے جائے اشک گریں گل چمن چمن
منظور گریہ گر میں ترا رنگ و بو کروں
آیا ہوں پارہ دوزئی دل سے نپٹ بتنگ
ایسے پھٹے ہوئے کو میں کب تک رفو کروں
کیا آرزو کہ خاک میں اپنی ملیں نہ یاں
کس رو سے اب فلک سے میں کچھ آرزو کروں
کہتا ہے آئنہ کہ ہے تجھ سا ہی ایک اور
باور نہیں تو لا میں ترے روبرو کروں
سارے ہی اس چمن سے ہوا خواہ اٹھ گئے
روؤں گلوں کو یا میں غم رنگ و بو کروں
قائمؔ یہ جی میں ہے کہ تقید سے شیخ کی
اب کے جو میں نماز کروں بے وضو کروں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |