آپ کیا ایک ستم گار بنے بیٹھے ہیں
Appearance
آپ کیا ایک ستم گار بنے بیٹھے ہیں
غیر بھی تو مرے غم خوار بنے بیٹھے ہیں
واعظوں کی بھی یہ توقیر ہے اللہ اللہ
پاسبان در خمار بنے بیٹھے ہیں
چشم ہے آب رواں سینے میں داغوں کی بہار
ہم بھی اک تختہ گل زار بنے بیٹھے ہیں
پوچھتے ہیں وہ مجھی سے یہ غضب تو دیکھو
آپ بھی طالب دیدار بنے بیٹھے ہیں
دل ربائی کے یہ انداز غضب ہیں تیرے
کہ ہوس پیشہ خریدار بنے بیٹھے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |