ابر کیا گھر گھر کے آیا کھل گیا
Appearance
ابر کیا گھر گھر کے آیا کھل گیا
بس ثبات بحر دنیا کھل گیا
راز دل کتنا چھپایا کھل گیا
حال اس دولت سرا کا کھل گیا
حسن عارض عارضی تھا کھل گیا
خط کے آتے ہی لفافہ کھل گیا
آنکھ سے رومال سرکا بعد مرگ
چشم تر کا آج پردا کھل گیا
تم جو بولے ہو گیا ثابت دہن
باتوں ہی باتوں میں عقدہ کھل گیا
کٹ گیا سر حل ہوئی مشکل مری
ناخن خنجر سے عقدہ کھل گیا
بے زبانی باتیں سنوانے لگی
گالیوں پر منہ تمہارا کھل گیا
تھا قلم بند اپنی آزادی کا حال
خط کو جب اس نے لپیٹا کھل گیا
خط پہ خط لائے جو مرغ نامہ بر
بولے ان مرغوں کا ڈربا کھل گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |