اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے
Appearance
اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے
آنکھوں سے وقت گریہ مگر خوں ٹپک پڑے
پہنچی جو ٹک جھلک ترے رانوں کی گوش تک
خجلت سے آب ہو در مکنوں ٹپک پڑے
طغیاں سرشک کا تو یہاں تک ہے چشم سے
اک قطرہ آب کا ہو تو جیجوں ٹپک پڑے
ڈوبا ہے بحر شعر میں ایسا نواؔ کہ اب
دے طبع کو فشار تو مضموں ٹپک پڑے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |