اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
Appearance
اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
اس کوچے میں کم ہی رہے گا کام ہمارا
ہے سخت مرے درپئے جاں تیرا غم ہجر
جاناں سے کہے جا کوئی پیغام ہمارا
جاگیر میں ہے غیر کی وہ بوسۂ لب گو
قائم رہے یہ منصب دشنام ہمارا
ہونے نہیں پاتے یہ مرے دیدۂ تر خشک
دولت سے تری تر ہے سدا جام ہمارا
دو دن میں کسی کام کا رہنے کا نہیں تو
کچھ تجھ سے نکل لے کبھی تو کام ہمارا
اک روز ملا عالم مستی میں جو ہم سے
تنہا بت بدمست مے آشام ہمارا
شمشیر علم کر کے لگا کہنے رکھوں ٹھور
بدنام تو کرتا پھرے ہے نام ہمارا
ایام کے ہر ذکر سے اور فکر سے فارغ
یا عشق ہے ورد سحر و شام ہمارا
ہوتا نہ فریبندۂ دل کاش کے حسرتؔ
آغاز میں یہ عشق بد انجام ہمارا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |