Jump to content

اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا

From Wikisource
اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
by حسرتؔ عظیم آبادی
302885اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہماراحسرتؔ عظیم آبادی

اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
اس کوچے میں کم ہی رہے گا کام ہمارا

ہے سخت مرے درپئے جاں تیرا غم ہجر
جاناں سے کہے جا کوئی پیغام ہمارا

جاگیر میں ہے غیر کی وہ بوسۂ لب گو
قائم رہے یہ منصب دشنام ہمارا

ہونے نہیں پاتے یہ مرے دیدۂ تر خشک
دولت سے تری تر ہے سدا جام ہمارا

دو دن میں کسی کام کا رہنے کا نہیں تو
کچھ تجھ سے نکل لے کبھی تو کام ہمارا

اک روز ملا عالم مستی میں جو ہم سے
تنہا بت بدمست مے آشام ہمارا

شمشیر علم کر کے لگا کہنے رکھوں ٹھور
بدنام تو کرتا پھرے ہے نام ہمارا

ایام کے ہر ذکر سے اور فکر سے فارغ
یا عشق ہے ورد سحر و شام ہمارا

ہوتا نہ فریبندۂ دل کاش کے حسرتؔ
آغاز میں یہ عشق بد انجام ہمارا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.