اب خاک تو کیا ہے دل کو جلا جلا کر
Appearance
اب خاک تو کیا ہے دل کو جلا جلا کر
کرتے ہو اتنی باتیں کیوں تم بنا بنا کر
عاشق کے گھر کی تم نے بنیاد کو بٹھایا
غیروں کو پاس اپنے ہر دم بٹھا بٹھا کر
یہ بھی کوئی ستم ہے یہ بھی کوئی کرم ہے
غیروں پہ لطف کرنا ہم کو دکھا دکھا کر
اے بت نہ مجھ کو ہرگز کوچے سے اب اٹھانا
آیا ہوں یاں تلک میں ظالم خدا خدا کر
دیتا ہوں میں ادھر جی اپنا تڑپ تڑپ کر
دیکھے ہے وہ ادھر کو آنکھیں چرا چرا کر
کوئی آشنا نہیں ہے ایسا کہ با وفا ہو
کہتے ہو تم یہ باتیں ہم کو سنا سنا کر
جلتا تھا سینہ میرا اے شمع تس پہ تو نے
دونی لگائی آتش آنسو بہا بہا کر
اک ہی نگاہ کر کر سینے سے لے گیا وہ
ہر چند دل کو رکھا ہم نے چھپا چھپا کر
جرأت نے آخر اپنے جی کو بھی اب گنوایا
ان بے مروتوں سے دل کو لگا لگا کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |