اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا
Appearance
اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا
اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا
شان کرم تھی یہ بھی اگر وہ جدا ہوا
کیا محنت طلب میں نہ حاصل مزا ہوا
میں اور کوئے عشق مرے اور یہ نصیب
ذوق فنا خضر کی طرح رہ نما ہوا
پہچانتا وہ اب نہیں دشمن کو دوست سے
کس قید سے اسیر محبت رہا ہوا
شایان درگزر ہے اگر اضطرار میں
جرم دراز دستی ذوق دعا ہوا
کیا کیا نہ اس نے پورے کئے مدعائے دل
لیکن پسند اسے دل بے مدعا ہوا
اس کا پتہ کسی سے نہ پوچھو بڑھے چلو
فتنہ کسی گلی میں تو ہوگا اٹھا ہوا
گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا
سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا
پیچیدہ تھی جو سر میں ہوائے رضائے دوست
آسیؔ مرید سلسلۂ مرتضیٰ ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |