اثر آہ کا گر دکھائیں گے ہم
اثر آہ کا گر دکھائیں گے ہم
ابھی کھینچ کر تم کو لائیں گے ہم
ذرا رہ تو اے دشت آوارگی
ترا خوب خاکہ اڑائیں گے ہم
فسانہ تری زلف شب رنگ کا
بڑھے گا جہاں تک بڑھائیں گے ہم
وہی درد فرقت وہی انتظار
بھلا مر کے کیا چین پائیں گے ہم
وہ گمراہ غیروں کے ہم راہ ہے
اسے راہ پر کیوں کہ لائیں گے ہم
قفس سے ہوا اذن پرواز کب
یہ خواہش ہی دل سے اڑائیں گے ہم
طلسم محبت ہے عاشق کا حال
انہیں بھی یہ قصہ سنائیں گے ہم
وہ نخوت سے ہیں آسماں سے پرے
کہاں سے انہیں ڈھونڈ لائیں گے ہم
نہ کر آہ یہ شورش افزائیاں
تجھے بھی کبھی آزمائیں گے ہم
نہ ٹوٹے گا سر رشتۂ اختلاط
وہ کھینچیں گے جتنا بڑھائیں گے ہم
یہ مانا کہ ہو رشک حور و پری
مگر آدمیت سکھائیں گے ہم
حذر تیر مژگاں کی بوچھاڑ سے
یہ اک دل کہاں تک بچائیں گے ہم
ہمیں زہر و خنجر کی کیوں ہے تلاش
شب غم میں کیا مر نہ جائیں گے ہم
نہ نکلا کوئی ڈھب تو بن کر غبار
نظر میں تمہاری سمائیں گے ہم
کہاں گھر میں مفلس کے فرش و فروش
وہ آئے تو آنکھیں بچھائیں گے ہم
ترے قد سے کی سرو نے ہم سری
اسے آج سیدھا بنائیں گے ہم
نہیں غسل میت کی جا قتل گاہ
مگر خاک و خوں میں نہائیں گے ہم
رہ عشق سے نابلد ہے ابھی
خضر کو یہ رستہ بتائیں گے ہم
ہوا وصل بھی تو مزا کون سا
وہ روٹھیں گے ہر دم منائیں گے ہم
شب و روز دل کو کریدیں نہ کیوں
یہیں سے پتا اس کا پائیں گے ہم
عبث ہے یہ مجروحؔ طول امل
بکھیڑے یہ سب چھوڑ جائیں گے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |