ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
Appearance
ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
مقامر خانۂ آفاق وہ ہے
کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے
کچھ آؤ زلف کے کوچے میں درپیش
مزاج اپنا ادھر اب تو گیا ہے
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |