ارتقا
قدم قدم پر جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اٹھاؤ جاؤ
یہ دیکھتے کیا ہو کام میرا نہیں تمہارا یہ کام ہے آج اور کل کا
تم آج میں محو ہو کے شاید یہ سوچتے ہو
نہ بیتا کل اور نہ آنے والا تمہارا کل ہے
مگر یوں ہی سوچ میں جو ڈوبے تو کچھ نہ ہوگا
جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اٹھاؤ جاؤ
چلو جنازوں کو اب اٹھاؤ
یہ بہتے آنسو بہیں گے کب تک اٹھو اور اب ان کو پونچھ ڈالو
یہ راستا کب ہے اک لحد ہے
لحد کے اندر تو اک جنازہ ہی بار پائے گا یہ بھی سوچو
تو کیا مشیت کے فیصلے سے ہٹے ہٹے رینگتے رہوگے
جنازے رکھے ہوئے ہیں ان کو اٹھاؤ جاؤ
لحد کھلی ہے
لحد ہے ایسے کہ جیسے بھوکے کا لالچی کا منہ کھلا ہوا ہو
مگر کوئی تازہ اور تازہ نہ ہو میسر تو باسی لقمہ بھی اس کے
اندر نہ جانے پائے
کھلا دہن یوں کھلا رہے جیسے اک خلا ہو
اٹھاؤ جلدی اٹھاؤ آنکھوں کے سامنے کچھ جنازے رکھے
ہوئے ہیں ان کو اٹھاؤ جاؤ
لحد میں ان کو ابد کی اک گہری نیند میں غرق کر کے آؤ
اگر یہ مردے لحد کے اندر گئے تو شاید
تمہاری مردہ حیات بھی آج جاگ اٹھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |