اردو شاعری کا مطالعہ
اگر آپ اردو شاعری کے تمام دفتر کا مطالعہ کریں تو اس میں سب سے زیادہ آپ کو غزلوں کا انبار نظر آئےگا۔ اس کے بعد مسدسوں کا ایک بڑا ذخیرہ ملےگا۔ پھر مثنویوں کا اور اس کے بعد آپ قصیدوں کا ایک مجموعہ دیکھیں گے مگر اس تمام دفتر کو اگر آپ غور و فکر سے دیکھیں تو ہر زمانے کے شعرا کے کلام میں آپ کو کچھ ایسی خصوصیات ملیں گی جو ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں۔ انہی خاص مابہ الامتیاز باتوں کا مطالعہ درحقیقت اردو شاعری کا مطالعہ ہے۔
سب سے پہلے آپ کو شاعری کے کلام کا بیرونی مطالعہ کرنا چاہیے یعنی یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کلام کی ظاہری ساخت کیسی ہے۔ اس کی شکل کس قسم کی ہے۔ آپ اس کے لفظی تاروپود، نحوی تراکیب، عروضی و بیانی خصوصیات پر بھی نظر ڈالیں۔ اس کے بعد آپ اس کلام کا اندرونی مطالعہ کریں یعنی یہ دیکھیں کہ وہ کلام کس قسم کے خیالات پر حاوی ہے۔ شاعر کن خاص معانی کا بار بار اعادہ کرتا ہے اور وہ اکثر کن خاص افکار کے دائرہ کے اندر گھومتا ہے۔
اندرونی مطالعہ کے بعد اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس کلام کا تعلق شاعر کے ذہن سے کیا ہے۔ یعنی عام طور پر شاعر اپنے کلام کو کیوں کر سرانجام دیتا ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر آپ کو معلوم ہوگا کہ یورپ کے شعرا کی نفسیات سے ہمارے شعرا کی نفسیات جداگانہ ہیں۔ پھر خود ہمارے شعرا اپنی اپنی خاص ذہنیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ اس کے بعد آپ کو غور سے دیکھنا چاہیے کہ زیر مطالعہ کلام پر ملکی یاغیرملکی ادبیات کا کیا اثر پڑا ہے۔ یعنی اس بات کی جستجو کرنی چاہیے کہ شاعر کے خیالات و افکار میں بیرونی اثر کہاں تک ہے اور اس کا ماخذ کیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کو اس بات کا سراغ بھی لگانا چاہیے کہ شعر کا تعلق شاعر کی زندگی سے کیا ہے یعنی شاعر کی سیرت کی جھلکیاں شعر میں کہاں تک ہیں۔ اس مطالعہ کے لیے ضروری ہے کہ آپ شاعر کی سوانح زندگی کا بھی مطالعہ کریں اور شاعر کی سیرت اور اس کے کلام میں مطابقت کی تلاش کریں۔ سب سے آخر میں اس امر پر غور کی نظر ڈالنی چاہیے کہ شعر کا تعلق شاعر کے زمانہ اور اس کے ماحول سے کیا ہے۔
اگر اس طریقہ سے آپ تمام اردو شعرا کے کلام کا زمانۂ قدیم سے زمانۂ حال تک مطالعہ کریں اور ان کی خصوصیات قلم بند کرتے جائیں تو آپ برائے ایقان دیکھیں گے کہ کس طرح رفتہ رفتہ زبان میں انقلاب ہوتا گیا ہے۔ کس طرح گرامر بدلتی گئی ہے۔ کس طرح خیالات میں تغیر ہوتا گیا ہے۔ کس طرح شاعری کی عروضی اور بیانی خصوصیات منقلب ہوتی گئی ہیں۔ کس طرح ایک ادب کا اثر دوسرے ادب پر دوڑتا گیا ہے۔ کس طرح ماحول کے بدلنے سے شاعروں کی نفسیات بدلتی گئی ہیں۔ یہ مطالعہ درحقیقت نہایت دلچسپ ہے۔
مثال کے طور سے اول بیرونی مطالعہ کو لیجیے۔ فرض کیجیے کہ آپ ولی کے کلام کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ آپ کو صاف طور سے نظر آئےگا کہ اس کے کلام میں ہندی الفاظ کا استعمال بمقابلہ آج کل کی شاعری کے بہت زیادہ ہے۔ وہ بہادر کی جگہ جودھا، طاقت کی جگہ پران، آنکھ کی جگہ نین، دکھائی دینا کی جگہ دسنا، دیدار کی جگہ درس اور درسن، آنسو کی جگہ انجھو، آئینہ کی جگہ درپن، جدائی کی جگہ برہ، سورج کی جگہ سور، محبت کی جگہ پریم، پانو کی جگہ پگ، تسبیح کی جگہ سمرن، بھولنا کی جگہ بسونا، کھانے کی جگہ بھوجن، دنیا کی جگہ سنسار، آگ کی جگہ اگن، رات کی جگہ رین وغیرہ الفاظ بے تکلف استعمال کرتا ہے۔ وہ معشوق کے لیے سجن، موہن، پیتم، سندر، پی، پیو، پیا، سریجن، ساجن، لالن وغیرہ الفاظ لاتا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ ولی کے زمانہ کی گرامر آج کل کی گرامر سے مختلف ہے۔ وہ ابتدا، فضیلت، زور، قدر، شہرت، زنجیر، رسید وغیرہ کو مذکر اور تار اور خواب مخمل وغیرہ الفاظ کو مؤنث لاتا ہے۔ فعلوں کی گردان کے علاوہ ضمائر در روابط میں بھی فرق ہے۔ وہ ہم کو ہمن کہتا ہے۔ تم کی جگہ تمن، تمنا، میں کی جگہ موں، منیں، سے کی جگہ سیں، سوں، ستی، یہ کہ جگہ یو اور کی جگہ ہور، اندر یا میں کی جگہ بھیتر، دوسرا کی جگہ دوجا، اپنے کی جگہ اپس، مجھ کو، میرا اور تجھ کو تیرا کی جگہ مجھ اور تجھ، جس کی جگہ جن نے، تبھی کی جگہ تدھان، کبھی کی جگہ کدھیں، تجھ جیسا کی جگہ تجھ سارکا، جس طرح کی جگہ جیوں کر، اتنا کی جگہ ایتا، ساتھ کی جگہ سنگات وغیرہ الفاظ لاتا ہے۔
فاعل کی علامات اس کے کلام میں اکثر نہیں آتیں۔ ایک خاص بات ولی کے کلام میں آپ کو یہ بھی نظر آئےگی کہ وہ فارسی عربی الفاظ کے ساتھ ہندی لفظوں کو مضاف کر دیتا ہے۔ مثلاً غنچہ نکہہ جام نین، نورنین، آب نین، روز نہاں وغیرہ۔ ترکیب توضیعی میں بھی وہ اسی قسم کے الفاظ کو بےتکلف جوڑ دیتا ہے۔ مثلاً شیریں بچپن، شکر بچن، گلدستہ خوش پاس۔ عطف کی فارسی داد دو بندی لفظوں کے درمیان لے آتا ہے۔ مثلاً دن و رات۔ اس زمانہ کا املا بھی آج کل کے املا سے علیحدہ ہے۔ مثلاً کو کو کون، سا کو سیا، نکلا کو نکلیا، کرنا کو کرناں، توکو توں، جوں کو جیوں اور اتنا کو اتناں لکھتے تھے۔
ایک خصوصیت ولی کے کلام میں آپ کو یہ نظر آئےگی کہ وہ بہت سے متحرک الفاظ کو ساکن اور ساکن کو متحرک کر دیتا ہے۔ مثلاً رین اور نین کو رَین اور نین، زلف کو زُلف، شمع کو شُمع، فکر کو فَکر، قفل کو قَفل، غرض کو غَرض وغیرہ۔ ہندی ادب کے تلمیحی الفاظ بھی آپ کو ولی کے کلام میں نظر آئیں گے۔ مثلاً پاتال، باسک، رام، لچھمن، سیتا، کشن، بدری، ارجن کا بان، کام روپ کا جادو، لیلا وتی وغیرہ۔
ایک خصوصیت ولی کے کلام میں آپ کو یہ بھی دکھائی دےگی کہ وہ وزن شعر میں بعض حروف کو اکثر گرا دیتا ہے۔ مثلاً گئی کی جگہ گی۔ ہوئی کی جگہ ئی، اے کی جگہ اَ، انکھیاں کی جگہ اکھاں، صفحہ کی جگہ صفا، نزدیک کی جگہ نزک، انجھو کی جگہ اجھو، نہیں کی جگہ نی، اندھیاری کی جگہ ادھاری، پوجن ہاری کی جگہ پجن ہاری، کہوں کی جگہ کوں، دوجے کی جگہ دجے، دنیا کی جگہ دنا، ہوئے کی جگہ ہو، سورج کی جگہ سرج، گھونگھٹ کی جگہ گھگھٹ، معلوم کی جگہ معلم، دیکھیے کی جگہ دکھے، کوئی کی جگہ کی، میٹھے کی جگہ مٹھے، سوتے کی جگہ سُتے، ٹوٹا کی جگہ ٹٹا، پھیکا کی جگہ پھکا، بہیتر کی جگہ بھتر، رہتا ہے کی جگہ رتا ہے۔ جنگل کی جگہ جگل، غصہ کی جگہ غصَہ، زنجیر کی جگہ زجیر لاتا ہے۔ ع اور ح اور ہ بھی وزن میں بعض موقعوں پر بے تکلف گرا دیتا ہے۔ مثلاً عاشق کی عین، حیرت کی ح اور ہوا کی ہ۔
قافیہ ردیف کے لحاظ سے اگر آپ ولی کے کلام پر نظر ڈالیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں سنگلاخ زمینیں بھی موجود ہیں جس کو لکھنؤ میں انشا اور مصحفی نے اور دہلی میں نصیر اور ذوق نے زیادہ رواج دیا۔ غزلوں کے بعض مجموعے آپ کو ایسے نظر آئیں گے کہ ان کے قافیے ردیفوں کے ساتھ حروف تہجی کی ترتیب سے بالقصد جوڑے گئے ہیں اور وہ زمینیں محض مشق سخن کے لیے اختیار کی گئی ہیں۔ مثلاً و کی جو ردیف دیوان میں ہے اس میں ے کو ردیف قرار دے کراول ایسا قافیہ اختیار کیا گیا ہے جس کے آخر میں الف ہے۔ مثلاً ادا ہے، ہوا ہے۔ پھر ایسے قافیے کے ساتھ اس ردیف کو جوڑا ہے جس کے آخر میں ب ہے۔ مثلاً کم خواب ہے، سیراب ہے۔ اسی طرح بالترتیب ت، ج، ہ، ر، س وغیرہ کے قافیے ی تک لائے گئے ہیں۔
اگر اسی طرح مختلف شاعروں کے کلام کا مطالعہ کرتے کرتے آپ میر و سودا کے زمانے تک پہنچیں گے تو آ پ کو اس زمانے کی گرامر بھی آج کل کی گرامر سے قدر مختلف نظر آئےگی، مگر اس قدر نہیں جس قدر کہ سلطان قلی قطب شاہ اور ولی کے زمانے کی گرامر۔ میر کی شاعری کے متعلق جو کچھ میں بیان کر چکا ہوں، اس میں اس زمانے کی زبان اور گرامر کی تفصیل کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ میر کی اس خصوصیت پر بھی آپ کو نظر رکھنی پڑےگی کہ وہ ہندی بحریں خاص کر استعمال کرتا ہے۔ مثلاً پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔ جانے نہ جانے کل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ ان بحروں میں اس کی غزلیں خاص کر نہایت دلچسپ ہیں اور جس طرح فارسی کا مشہور ہندوستانی خیال بند شاعر بیدل خاص خاص لمبی بحروں میں اپنا خاص کمال دکھاتا ہے اور ان بحروں میں کوئی شاعر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، یہی حال میر کا ان ہندی بحروں میں ہے۔ سودا کی شاعری میں یہ خصوصیت آپ کو نظر آئےگی کہ وہ غزلوں میں قصیدہ کی زبان یعنی عربی فارسی ترکیبیں زیادہ استعمال کرتا ہے اور قصیدہ کی طرح غزلوں میں بھی سنگلاخ زمینیں اختیار کرتا ہے۔
اگر آپ انشا اور مصحفی کے دیوانوں کا مطالعہ کریں تو ان میں بہت سی سنگلاخ زمینیں آپ کو ملیں گی۔ انشا کا کلام کہیں صاف نظر آئےگا اور کہیں اس کی زبان کھچڑی دکھائی دےگی۔ یعنی وہ ان تمام زبانوں کے الفاظ جاوبیجا لاتا ہے جن کو وہ جانتا ہے۔ اگر آپ ناسخ کا دیوان ذرا اٹھائیں اور اس کو مطالعہ کرنا شروع کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ شاعر گرامر کے خلاف ایک قدم نہیں اٹھاتا۔ جچے تلے الفاظ لاتا ہے۔ جو الفاظ اور جو ترکیبیں اس نے ترک کر دی ہیں، ان کا قدم قدم پر خیال رکھتا ہے۔ اس نے اپنے لیے زبان کی خاص حدود مقرر کر لی ہیں۔ ان سے کبھی باہر نہیں نکلتا۔ عام بول چال بہت کم استعمال کرتا ہے۔ وہ ایک ایسی زبان بولتا ہے جو بالکل فارسی زبان کا عکس ہے۔ وہ تخیل میں آزاد نہیں ہے، بس انہیں مضامین پر قانع ہے، جن کو اس کی بجبر اختیار کی ہوئی زبان ادا کر سکے۔ ناسخ کے کلام کا بغور مطالعہ کرنے والا اس کی زبان کو دیکھ کر ایک ہی نظر میں خشک اور گٹھل کہہ دےگا۔ برخلاف اس کے آتش کی زبان میں اس کو شگفتگی نظر آئےگی۔ وہ لکھنؤ کی عام بول چال کا بھی خیال رکھتا ہے۔ عربیت یا فارسیت اس کے کلام پر غالب نہیں ہے۔ وہ گرامر کی اس قدر پروا نہیں کرتا جس قدر کہ ناسخ کرتا ہے۔ اس کی زبان کی حدود ناسخ کی نسبت ذرا وسیع ہیں۔
رند اس سے بھی زیادہ عام بول چال کا پابند ہے۔ اس کے کلام کا مطالعہ کرنے والا اس زمانے کی اس زبان سے واقف ہو سکتا ہے جو لکھنؤ میں عام طور پر مستعمل تھی۔ اس پر عربیت یا فارسیت مطلق غالب نہیں۔ رشک اور امانت کے دیوان اٹھاکر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ یہ شاعر سر سے پاؤں تک ضلع جگت اور رعایت لفظی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ متاخرین لکھنؤ میں سے اسیر اور امیر بھی رعایت لفظی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مگر امیر نے آخر زمانے میں اپنا قدیم انداز چھوڑ دیا تھا اور داغ کے کلام کی شہرت نے محاورہ بندی اور سادہ بیانی پر آمادہ کر دیا تھا۔ تاہم یہ نئی طرز نبھ نہ سکی۔
دہلی کے شعرا میں سے نصیر حد سے زیادہ سنگلاخ زمینوں پر چلنے کے عادی ہیں اور ان کا اثر ذوق پر بھی پڑا۔ مگر ذوق اور ظفر نے محاورہ بندی کا خاص شیوہ اختیار کیا ہے۔ ان کی شاعری کا مقصد بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ عام بول چال اور محاورات کو روشناس کریں۔ اس بناپر ان کے کلام میں جس قدر محاورے اور ضرب المثلیں پائی جاتی ہیں اتنی کسی شاعر کے کلام میں نہیں۔ لغت نویس انہیں کے کلام سے ان چیزوں کی سند پیش کرتے ہیں۔ مگر ذوق کے شاگرد داغ نے آخر زمانے میں محاورہ بندی کو اپنی شاعری کا مقصد نہیں رکھا تھا۔ وہ قدیم شاعر جرأت کی طرح واردات معاشقہ کو سیدھی سادھی عام بول چال میں روانی کے ساتھ ادا کرنا پسند کرتے تھے۔ ان کے کلام میں بجائے محاورات کے روزمرہ کا استعمال زیادہ ہے۔
مومن خاں عام بول چال اور محاورات کی پروا نہیں کرتے تھے۔ ان کے کلام میں محذوفات زیادہ ہیں۔ وہ آدھی بات زبان سے نکالتے ہیں اور آدھی دل میں رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کا کلام سمجھنے میں اکثر لوگوں کو دقت پیش آتی ہے۔ ان کے اس خاص انداز کی پیروی کسی سے نہ ہو سکی، اگرچہ کوشش بہت لوگوں نے کی۔ غالب بھی زبان کے عام محاورات کی پروا نہیں کرتے۔ وہ خیال کو مقدم سمجھتے ہیں اور اس کے لیے زبان خود تیار کرتے ہیں۔ عام بول چال کا لباس اپنے خیال کو پہنانا نہیں چاہتے۔ ان کے قدیم انداز میں فارسیت غالب ہے اور خیال بند شاعروں کی ترکیبیں بار بار آتی ہیں۔ اضافتوں کی بھرمار ہے۔ مگر جب وہ اس طرز کو ترک کرتے ہیں اور صاف بیانی پر آمادہ ہوتے ہیں تو پھر بھی ذوق کی طرح محاورہ اور بول چال کو اپنی شاعری کا مقصد نہیں بناتے۔ ان کا ہر خیال خودبخود ایک مناسب اور موزوں سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور جو زبان اس طرح پیدا ہوتی ہے وہ عام لوگوں کی بول چال سے جداگانہ نظر آتی ہے۔
غالب کے بعد حالی بھی عام بول چال اور محاورات کے پھندے میں گرفتار نہیں ہوئے۔ ان کی شاعری کا محور بھی خاص خیالات کا اظہار ہے اور ان کے خیالات ایسی زبا ن اختیار کرتے ہیں جو عام بول چال سے ممتاز ہے۔ حالی مستقل نظمیں ترکیب بندوں، ترجیع بندوں، قطعوں اور مثنویوں کی شکل میں اکثر لکھتے ہیں اور ان کے ہاں برخلاف دیگر شعرا کے مسلسل غزلیں بھی ہیں۔ حالی کے بعد سب سے زیادہ شہرت اقبال کی ہوئی ہے۔ اقبال نے فارسی زبان کی تعلیم معقول حاصل کی ہے۔ ان کی زبان پر فارسی ترکیبیں بہت چڑھی ہوئی ہیں۔ وہ اپنے خیالات کو زیادہ تر استعاروں اور تشبیہوں میں ادا کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں جو فارسی ترکیبیں بار بارآتی ہیں وہ نہایت دلکش اور موزوں ہیں۔ اردو زبان کی عام بول چال کی وہ بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیالات کی دنیا نرالی ہے۔ وہ غالب کی طرح گہرے فلسفیانہ خیالات ادا کرنا چاہتے ہیں جن کے قدوقامت پر عام بول چال کا لباس ٹھیک نہیں اترتا۔ ناواقف لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ان کو اردو زبان نہیں آتی۔
غالب اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ فارسی ترکیبیں غالب کے قدیم کلام میں جس قدر ہیں، اس قدر ان کے بعد کے کلام میں نہیں ہیں۔ مگر قدیم کلام میں فارسی ترکیبیں حد اعتدال سے زیادہ ہیں اور ان کی زیادتی کے سبب اردو کلام بالکل فارسی ہو گیا ہے اور اس کے لیے ایک آدھ لفظ کی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے اقبال کے کلام میں فارسی ترکیبیں اس قدر افراط سے نہیں ہیں کہ ان کے کلام کو اردویت سے خارج کردیں۔ ان کا کلام بدستور اردو رہتا ہے اور وہ ترکیبیں بجائے خود نہایت خوشنما اور موزوں معلوم ہوتی ہیں۔ اضافتوں کی بھیڑ بھی غالب کے قدیم کلام میں جس قدر ہے اس قدر اقبال کے کلام میں نہیں ہے۔ اس لیے بھی ان کا کلام اردویت کے دائرہ سے نہیں نکلا۔ غالب کے کلام اور اقبال کے کلام دونوں کو بالمقابل رکھ کر اگر ان کی فارسی ترکیبیں چن لی جائیں تو اقبال کی فرہنگ غالب کی فرہنگ سے زیادہ سیر او روسیع ہوگی۔ چنانچہ دونوں کے کلام سے اس قسم کی ترکیبیں چن لی گئیں ہیں اور دونوں کی فرہنگیں تیار کر لی ہیں۔
زمانہ حال کے دیگر شعرا کے کلام میں، جن کا کلام اخباروں اور رسالوں میں چھپتا رہتا ہے، شکل و ساخت کے لحاظ سے کوئی خاص بات نہیں ہے۔ البتہ ایک شاعر آزاد انصاری ہیں جو مولانا حالی کے شاگردوں میں ہیں۔ ان کے کلام کا ایک خاص انداز ہے۔ وہ دو دو شعروں کا ایسا جوڑ رکھتے ہیں جس میں پہلے شعر کے پہلے مصرع کا قافیہ دوسرے شعر کے پہلے مصرع کے قافیہ سے ملتا ہے اور دوسرے مصرعوں کا قافیہ وہی ہوتا ہے جو غزل کی اصلی زمین کے مطابق ہے اور یہ ان کے کلا م کا عام انداز ہے۔ یہاں مثال کے طور پر ان کے چار شعر لکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو شعروں کا ایک جوڑ ہے اور دوسرے دو شعروں کا دوسرا جوڑ ہے۔ غزل کی عام زمین ہے۔ بسمل دیکھتے جاؤ، مائل دیکھتے جاؤ۔
وہ نظریں جو کبھی اک بے وفا سے لڑکے نازاں تھیں
اب ان کو اپنی بدبختی کا قائل دیکھتے جاؤ
وہ آنکھیں جو کبھی پروانۂ رخسار جاناں تھیں
اب ان کو گریۂ حسرت میں شاغل دیکھتے جاؤ
وہ الفت جس کے استحکام پر دنیا کو حیرت تھی
اب اس کو مثل رنگ خام زائل دیکھتے جاؤ
وہ بدبخت محبت جس کی فطرت ہی محبت تھی
اب اس کو صبر کر لینے کے قابل دیکھتے جاؤ
بیک نظر معلوم ہوگا کہ علاوہ اس خاص انداز کے جس کا اشارہ کیا گیا ہے ان اشعار میں تشابہہ ترکیب بھی ہے۔ یعنی پہلے شعر کے پہلے مصرع کی ترکیب دوسرے شعر کے پہلے مصرع کی ترکیب سے ملتی جلتی ہے۔ اسی طرح پہلے شعر کے دوسرے مصرع کی ترکیب دوسرے شعر کے دوسرے مصرع کی ترکیب سے مشابہ ہے۔ آزاد کا خاص انداز جو عام طور سے ان کے کلام میں پایا جاتا ہے حالی سے ماخوذ ہے۔ یہ انداز حالی کے کلام میں کہیں کہیں ہے۔ آزاد نے اس انداز کو پسند کرکے اس پر اپنے عام کلام کی بنیاد رکھی ہے۔ اسی طرح تشابہ ترکیب کا انداز غالب کے کلام میں کہیں کہیں پایا جاتا ہے۔
انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑئیے
ہمیں جواب سے قطع نظر ہے کیا کہئے
حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجیے
ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کہئے
تعقید سے کوئی شاعر نہیں بچا۔ یعنی لفظوں کو ہیر پھر کر نظر میں اس طرح رکھنا کہ عام بول چال کی ترکیب سے اس کی ترکیب مختلف ہو جائے۔ مگر آزاد انصاری حتی الوسع تعقید سے بھی بچتے ہیں اور اکثر ایسی طرحیں اپنے لیے تجویز کرتے ہیں جن میں تعقید کی ضرورت نہ پڑے۔ مشاعروں میں جو طرحیں ان کے منشا کے مطابق نہیں ہوتیں، ان پر طبع آزمائی نہیں کرتے۔ ان قیود کے اختیار کرنے سے آزاد کا کلام بہت مقبول ہوا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ خیال کو انھوں نے اپنی شاعری میں مقدم نہیں رکھا۔ اس بنا پر ان کا اکثر کلام لفظوں کا کھلونا ہے۔ شکل و ترکیب سے ان کے کلام کی عام شعرا کے کلام کی شکل و ترکیب سے بیشک جداگانہ ہے مگر خیال کی گہرائی اور بلندی کا پتہ نہیں ہے۔ زمانۂ حال کے دیگر شعرا میں شکل و ترکیب کے لحاظ سے بھی کوئی ندرت نہیں ہے۔ البتہ بعض شعرا ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ہر خیال کو استعاروں اور تشبیہوں کے سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ مگر ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اگر کلام کی شکل و ترکیب پر استعارہ و تشبیہ کا ملمع چڑھانا چاہتے ہیں تو خیال میں بھی بلند پروازی دکھائیں۔ ورنہ ان کا کلام زندہ نہیں رہ سکتا۔
اگر آپ مثال کے طور پر شعر کا اندرونی مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ سودا مدح و قدح کا استاد ہے۔ اس کے قصائد اس مضمون کے لحاظ سے اس قدر بلندی پر واقع ہوئے ہیں کہ اردو کاکوئی شاعر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ذوق نے آخر زمانے میں قصاید لکھنے میں ضرور شہرت حاصل کی، مگر سودا سے اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ قصاید کی تمہیدیں ان کا اہم جز ہیں۔ انہیں تمہیدوں میں قصیدہ گو شاعر اپنا کمال دکھاتے ہیں۔ چوں کہ قصیدوں میں خارجی شاعری اور داخلی شاعری دونوں ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یا تو ان میں سوسائٹی کے حالات کا مرقع کھینچ کر دکھایا جاتا ہے یا حکیمانہ خیالات بیان کیے جاتے ہیں۔ ذوق کے ایک آدھ قصیدہ کے سوا کسی قصیدہ کی تمہید میں حکیمانہ خیالات کا اظہار نہیں ہوا۔ مگر سودا کے قصاید میں یہ عنصر زبان ہے۔ اس کے قصائد کی اکثر تمہیدیں ان بلند خیالات سے لبریز ہیں۔ ذوق کو خارجی شاعری کی ہوا بھی نہیں لگی۔ برخلاف اس کے سودا نے اپنے قصائد میں متعدد موقعوں پر خارجی شاعری کا کمال دکھایا ہے۔
میر سب سے زیادہ ممتاز شاعر ہے، جس نے اپنی شاعری میں اپنے اندرونی اور قلبی واردات کی سچی تصویریں کھینچی ہیں۔ اسباب میں کوئی شاعر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسی سبب سے غزل جو داخلی شاعری کے لیے موزوں سانچہ ہے، اس میں آج تک اس شاعر کا جواب پیدا نہیں ہوا۔ میر حسن نے مثنوی میں اور ان کے پوتے انیس نے مرثیہ میں خارجی اور داخلی شاعری کے ایسے کمال دکھائے ہیں کہ ان دونوں قسم کی شاعریوں کا ان پر خاتمہ ہو گیا۔ غزل گو شعرا میں آتش خودداری اور فقیر منشی کے خیالات اپنے کلام میں زیادہ تر ادا کرتا ہے۔ ناسخ روکھے پھیکے انداز میں اخلاقی خیالات کو صائب کی مثالیہ شاعری کا لباس پہناتا ہے۔ رند عاشقانہ جذبات کی جھلکیاں دکھاتا ہے۔ امیر نے آخر زندگی میں عاشقانہ جذبات کی تصویر کھینچنی چاہی اور داغ کی تقلید میں اپنے رستے سے ہٹ کر دوسرے رستے پر چلنا چاہا مگر کامیاب نہ ہوئے۔ کیوں کہ یہ خیالات ان کی زندگی اور سیرت کے خلاف تھے۔
امیر نہایت مقدس آدمی تھے اور جو کچھ وہ داغ کی تقلید میں کہتے تھے ان کی زبان پر زیب نہیں دیتا تھا۔ ایک شخص نے ان کے کلام میں سے جو آخری دیوان سے انتخاب کیا گیا ہے، ایسے اشعار کثرت سے چنے ہیں، جن میں معشوقوں کی چھاتیوں کا ذکر ہے۔ ان اشعار میں جو شوخ اشارات ہیں وہ بازاری لوگوں کی زبان سے البتہ موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ امیر کے چہرہ پر مطلق نہیں کھلتے۔ ان کے شاگردوں میں سے ریاض نے خاص شہرت رندانہ خیالات میں حاصل کی ہے اور اس کے اشعار اکثر لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔ ریاض کی زندگی میں لاابالی پن ہے۔ وہ امیر کی طرح مقدس زندگی نہیں رکھتا۔ اس لیے جو رندانہ جذبات اس نے ظاہر کیے ہیں وہ اس کی زندگی کے مطابق ہیں۔ جرأت کے کلام میں معاملہ بندی ہے اور اس صنف سخن میں اس کو خاص شہرت ہوئی ہے۔
نظیر اکبرآبادی نے عام لوگوں کے میلوں ٹھیلوں اور ان کے حالات و خیالات اور مشاغل زندگی کی ایسی سچی اور صحیح تصویریں کھینچی ہیں کہ کوئی شاعر اس کا مقابلہ اس باب میں نہیں کر سکتا۔ عام شعرا نے اس کی زبان کو تسلیم نہیں کیا مگر یہ ان کی غلطی ہے۔ کیوں کہ جب وہ عوام کی زندگی کا نقشہ کھینچنا چاہتا ہے تو بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ انہیں کی زبان اور انہیں کی بول چال اختیار کرے۔ اگر کبھی ہمارے تنقید نگاروں کی آنکھیں کھلیں تو اس شاعر پر اس قدر تبصرے لکھے جائیں گے جتنے کہ انگریزی زبان کے مشہور شاعر و ڈراما نویس شیکسپیئر پر لکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر فالن نے نظیر کو ایشیا کا شیکسپیئر بتایا ہے اور اس صداقت میں شک کرنے کی مجال نہیں۔
دلی کے شعرا میں درد اور مظہر صوفیانہ خیالات اور مومن خاں رقابت اور رشک کا مضمون خاص طور سے ادا کرتے ہیں۔ ذوق اور نصیر کا کوئی خاص مضمون نہیں جس کو انہوں نے اپنے کلام کا محور بنایا ہو۔ غالب بھی رشک کا مضمون مومن کی طرح اکثر جگہ ادا کرتے ہیں۔ مگر زیادہ تر ان کا وہ کلام مقبول ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے بلند خیالات خودداری اور جذبہ آزادی کے ادا کیے ہیں اور ان کو فلسفیانہ لباس پہنایا ہے۔ داغ معاملہ بندی کا استاد ہے۔ وہ روز مرہ کے پیرایہ میں عاشقانہ واردات کو اس خوبی سے ادا کرتا ہے کہ اس کی تعریف نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کا اکثر کلام لوگوں کی زبانوں پر ہے اور اس کی قبولیت کا گریہی ہے کہ اس نے اس خاص صنف میں جو کچھ کہا ہے وہ اس کی اصلی زندگی کا پرتو ہے اور وہ اس کے دلی جذبات ہیں جو عام زبان کا سانچہ اختیار کرکے لوگوں کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔
حالی مصلحانہ دماغ رکھتے ہیں۔ ان کی طبیعت حساس ہے۔ وہ اپنی قوم کی موجودہ تباہی کا خاص اثر اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔ وہ جب قوم کی ذلت اور نکبت کا کوئی واقعہ سنتے ہیں تو بیتاب ہو جاتے ہیں اور جس طرح آنسو آنکھوں سے بے اختیار ٹپکتے ہیں، اسی طرح درد آمیز الفاظ ان کی زبان سے بے اختیار نکلتے ہیں۔ انہوں نے تمام عمر اپنی قوم کا دکھڑا رویا اور اس دردناک لے میں اس راگ کو بار بار گایا کہ ان کی آواز نے تمام قوم کو تڑپا دیا اور افراد قوم میں عام طور سے کہرام برپا کر دیا اور ان کو اپنی زندگی کے بدلنے اور زمانہ کے مطابق اپنے تئیں نئے سانچے میں ڈھالنے پر مجبور کر دیا۔ حالی کی مثال ترکی شاعر نامق کمال کی ہے جس نے انہیں کی طرح اپنی قوم کو ترکوں کا گزشتہ عروج اور موجودہ تنزل دکھاکر زندہ رہنے اور بیدار ہونے پر کمربستہ کر دیا۔ اب تک جو ترکی قوم باوجود صدیوں کی کش مکش اور مصیبت کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہے، یہ اسی شاعر کی شاعری کا پرتو ہے۔
ہماری قوم میں بھی ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک خیالات کا جو تلاطم برپا ہے وہ حالی کے زندہ کن کلام کا فیض ہے۔ نامق کمال نے ترکی شاعری میں انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ پہلے ترکی شعرا یا تو عاشقانہ جذبات ادا کیا کرتے تھے یا تصوف کے رنگ میں غرق تھے۔ اس شاعر کے بعد یکایک ترکی شعرا بیدار ہوئے۔ انہوں نے بھی نامق کمال کی طرح قومیت کی روح پھونکنے کی کوشش شروع کر دی۔ یہی حال حالی کا ہے۔ ان کے کلام نے بھی اردو شاعری میں نئی زندگی پیدا کر دی۔ سینکڑوں چھوٹے موٹے شاعر انہیں کے نغموں کو دہرانے لگے۔ مگر ان شعرا میں سے صرف دو شاعروں نے اپنے زندہ رہنے کا سامان مہیا کیا۔ باقی کسی شاعر کے کلام میں زندہ رہنے کی قابلیت نہیں تھی۔ ان دو شاعروں میں ایک تو اکبر الہ آبادی ہیں، جنہوں نے قوم کی زندگی پر ظریفانہ انداز میں تنقید کی۔ دوسرے اقبال ہیں جنہوں نے فلسفیانہ انداز اختیار کیا اور اس پیرایہ میں قوم کو بیدار کرنے کا تہیہ کیا۔
چونکہ ان دونوں شاعروں کے انداز کلام مخصوص تھے اور حالی سے جداگانہ تھے، اس لیے ان کے کلام کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ (اگر یہ دونوں نامور شاعر حالی کے رنگ میں قومی تنزل کا دکھڑا رونے کی کوشش کرتے تو شاید حالی جیسی کامیابی کبھی حاصل نہ کر سکتے کیوں کہ جو درد حالی کے دل میں بھرا تھا اس کو اپنے دل میں پیدا کرنا مشکل تھا۔) ان نامور شعرا کی شاعری کبھی مر نہیں سکتی۔ ان میں سے اکبر کا کلام اس سبب سے کہ ظریفانہ انداز میں ہے، اس نے عام و خاص کے دلوں کو گھیر لیا ہے۔ مگر اقبال کا کلام خاص تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان پر ہے کیوں کہ وہ فلسفیانہ پر مغز خیالات ہیں اور عام لوگوں کی پرواز خیال ان کے بلند افکار تک نہیں پہنچ سکتی۔ دوسری وجہ یہ بھی کہ اکبر نے عام بول چال میں اپنے خیالات ادا کیے ہیں اور اقبال نے ایسی زبان میں شاعری کی ہے جو فارسی نما ہے اور جس سے عوام آشنا نہیں۔
اقبال نے اب اردو کو چھوڑ کر فارسی زبان ہی میں شاعری شروع کر دی ہے تاکہ ہندوستان کے علاوہ دیگر ملکوں کے مسلمان بھی ان کے خیالات کو سمجھ سکیں اور اس سے متاثر ہو سکیں۔ ہندوستان کے فارسی داں مسلمان ان کے اس کلام کو سمجھتے ہیں۔ عام مسلمان جو فارسی نہیں جانتے ان کی سمجھ سے یہ کلام باہر ہے۔ مگر افغانستان اور ایران کے لوگ عام طور سے اس کلام سے اثرپذیر ہو سکتے ہیں اور ترک اور تاتاری بھی ان کے کلام کے صحیح مخاطب ہو سکتے ہیں۔ اقبال کا فارسی انداز بیان اختیار کرنا اردو زبان کے لیے سراسر بدقسمتی ہے مگر وہ اپنی مصلحت کو خود ہی بہتر جانتے ہیں۔
خاص خاص شعرا کے کلام کی اندرونی خصوصیات کے علاوہ اگر لکھنو اور دہلی کے شعرا کا کلام مجموعی طور پر اٹھاکر دیکھو تو ان دونوں مقامات کی شاعری میں ایک خاص امتیاز نظر آتا ہے۔ لکھنو کے شعرا زیادہ تر خارجی مضامین غزل میں باندھتے رہے ہیں اور دہلی کے شعرا عام طور پر داخلی مضامین کی طرف متوجہ رہے ہیں۔ اس وقت نہ دہلی میں کوئی بڑا شاعر ہے نہ لکھنؤ میں۔ ابھی چند روز ہوئے ہیں کہ داغ کی دہلی میں اور امیر مینائی کی لکھنؤ میں شہرت تھی۔ ان دونوں کے روپوش ہونے کے بعد لکھنؤ میں صفی اور عزیز اور دہلی میں بیخود اور سائل رہ گئے ہیں اور یہ چاروں شاعر داغ اور امیر کے درجے پر نہیں ہیں۔ سائل اور بیخود دونوں داغ کے انداز میں شاعری کرتے ہیں۔ مگر عزیز اور صفی نے لکھنؤ کے دبستان شاعری کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ لکھنؤ میں جو رعایت لفظی اور صنعت پرستی کا زور تھا اس کو ان شاعروں نے ترک کر دیا ہے۔ لکھنؤ کی شاعری میں جو پہلے خارجی مضامین کی بھرمار تھی، اس سے بھی ان شعرا نے توبہ کر لی ہے۔ یہ دونوں شاعر اب غالب کے دبستان میں داخل ہو گئے ہیں۔
میں جب لکھنؤ میں مسلم گزٹ کی ایڈیٹری کر رہا تھا تو لکھنؤ کے مشاعروں میں شریک ہونے کا اکثر اتفاق ہوتا تھا۔ میں اس بات کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ وہاں عام طور پر تمام شعرا غالب کی پیروی کر رہے تھے اور اپنے تئیں اسی کے دبستان کامتعلم بتاتے تھے۔ تاہم دہلی کے شعرا کے مقابلہ میں ایک خصوصیت لکھنؤ کے شعرا میں موجود تھی اور وہ یہ کہ موت، نزع کی حالت، جنازہ اور قبر کے متعلق مضامین ان کی غزلوں میں عام طور سے آتے تھے اور اب بھی یہ خصوصیت لکھنؤ کے شعرا کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ اس کا اثر عام طور سے اودھ اور یوپی کے شعرا پر پڑا ہے۔ ان سب کے کلام میں بھی یہ مضامین خاص طور سے باندھے جاتے ہیں۔ کوئی شاعر ایسا نہیں جس کی ہر غزل میں دو تین شعر اس رنگ کے نہ ہوں۔
مشاعروں میں جب کوئی شاعر اپنا کلام پڑھتا ہے تو سب کی نظریں اس طرف لگی رہتی ہیں کہ کب کوئی شعرا اس رنگ کا اس کے کلام میں آتا ہے اور جب ایسا شعر سنائی دیتا ہے تو شور تحسین بلند ہوتا ہے۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ لکھنؤ میں مرثیہ کی شاعری کو عروج ہوا۔ دہلی کے شعرا کو اس صنف شاعری سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ لکھنؤ میں اب مرثیہ کی شاعری کا زور گھٹ گیا ہے اور کوئی باکمال شاعر اب وہاں ایسا نہیں ہے جس نے اس صنف میں نام پیدا کیا ہو، حالاں کہ وہاں کی پبلک اب بھی انہیں دردناک خیالات کے سننے کی طالب ہے۔ اسی طبعی خواہش کا اقتضا ہے کہ وہاں کے موجودہ شعرا نے غزل میں نزع اور موت کا دردناک منظر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر میں یہاں لکھنو کے زندہ شاعر عزیز کے کلام کا اقتباس پیش کرتا ہوں۔
نزع میں پھرتی ہوئی آنکھوں کو
ترا افسوں نظر یاد آیا
ستم ہے لاش پر اس بے وفا کا یہ کہنا
کہ آنے کا بھی کسی کے نہ انتظار کیا
کسی نے نزع کی یوں گتھیوں کو سلجھایا
سرہانے بیٹھ کے ہر سانس کا شمار کیا
اب تک ہیں یاد روح کو آثار نزع کے
ماتھے پر اک شکن تھی کلیجے میں درد تھا
آکے دیکھے نزع میں کھنچتے جو میرے ہاتھ پاؤں
اف ری شوخی ایک انگڑائی سی لے کر رہ گیا
مری میت پہ کس دعوے سے وہ کہتے ہوئے آئے
ہٹا دینا ذرا ان رونے والوں کو ہٹا دینا
یہ کہہ کر قبر پر پھر یاد اپنی کر گئے تازہ
ارے اے مرنے والے اب مجھے دل سے بھلا دینا
ہجوم عام ہے بالیں پہ سب غم خوار بیٹھے ہیں
وہ خود جب سے قریب بستر بیمار بیٹھے ہیں
ہر اک ہچکی میں کیوں کر کھل رہے ہیں موت کے عقدے
فقط وہ دیکھنے یہ حالت بیمار بیٹھے ہیں
اسی کی شام غم پہ صدقے ہو مری صبح حیات
جس کے ماتم میں تری زلفیں پریشاں ہو گئیں
نہ پوچھو دم کے رکنے کا سبب تم نزع میں مجھ سے
کیا ہو زندگی بھر ضبط جس نے رائگاں کیوں ہو
دم آخر مریض غم کی بالیں تک چلے آؤ
کسی کی عمر بھر کی جانفشانی رائگاں کیوں ہو
کھڑے بالیں پہ وہ ہنستے ہیں اپنا دم نکلتا ہے
برے وقت اے فلک کوئی کسی کا کم نکلتا ہے
شب غم نزع کی بھی سختیوں کا کر لیں اندازہ
نکل اے آہ یوں سینے سے جیسے دم نکلتا ہے
وداع دل ہجوم آرزو میں کیا کہوں تجھ سے
بھرے گھر سے جنازہ جیسے اے ہم دم نکلتا ہے
وہ وقت آیا کہ اب سینے میں ہر دم ہوک اٹھتی ہے
نفس کہتے ہیں جس کو وہ بہت ہی کم نکلتا ہے
بنا ہے مرکز تاثیر غم بیمار کا چہرہ
یہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
ہماری بیکسی کی موت تھی عبرت کا افسانہ
جسے دیکھو شریک مجلس ماتم نکلتا ہے
رگیں کھنچنے سے جذب عشق کا اندازہ کرتے ہیں
وہ کیا جانیں ابھی کن مشکلوں سے دم نکلتا ہے
دیکھوں تو جذب حسرت دیدار وقت نزع
اے روح یوں نکل کہ تماشا کہیں جسے
کیا کہوں کیا نہ کہوں ہستی موہوم کا راز
نزع میں پوچھتے ہیں کیا ہے حقیقت تیری
نزع میں پر تو رخ ڈال کہ روشن ہو نگاہ
اب دکھائی نہیں دیتی مجھے صورت تیری
جب کفن لائے ہیں بیمار محبت کے لیے
صبح اس وقت ہوئی ہے شب فرقت تیری
دم اکھڑتا ہے کسی کا اور وہ بیٹھے ہیں خموش
دیکھ لے یہ منظر عبرت کسے اب ہوش ہے
آئیے نزع کا ہنگام ہے اب
مشورہ آپ سے کچھ کرنا ہے
بالیں پہ میرے کہہ کے کسی نے یہ کھولے بال
دیکھیں تو امتیاز اسے شام و سحر میں ہے؟
گھبرائیے نہ ختم ہے بیمار شام عمر
بس تھوڑی دیر اور طلوع سحر میں ہے
کہتی ہے روح نزع میں رستہ دکھا چکے
جاتے ہیں ہم خود آپ وہاں وہ تو آ چکے
یہ وصیت آخری ہے اسے سن لیں سب احباب
کوئی دل کا ذکر کرتا نہ سر مزار آئے
رگیں کھنچنے لگیں اب نزع کا ہنگام آتا ہے
وہ جائیں ورنہ ان کے سر پہ سب الزام آتا ہے
یہ سناٹا یہ تاریکی یہ گورستاں یہ ویرانی
تمہیں اے سونے والو کس طرح آرام آتا ہے
یہ کیا تھا یوں تو وہ دیکھا کیے دم توڑنا میرا
مگر انگڑائی لی اک روح نکلی جب مرے دل سے
کہتے ہیں وقت نزع وہ بیمار ہجر سے
ختم اک نفس میں شرح تمنا کرے کوئی
میت بیمار ہجراں دیکھنے سے فائدہ
نقش کچھ دھندلے سے ہیں بگڑی ہوئی تصویر سے
دیکھئے تو چہرۂ بیمار سرکا کر کفن
آج ہیں دشمن بھی شاکی آپ کی تاخیر کے
نزع میں کس کو بھلا تاب شکیبائی ہے
جب وہ آئے ہیں تو کچھ جان میں جان آئی ہے
تھی صبح اور ستارے کچھ جھلملا رہے تھے
بیمار شام فرقت دنیا سے جا رہے تھے
دم توڑتا نہیں کوئی بیمار اس طرح
شاید شریک موت کسی کی ادا بھی ہے
ہستی کے رخ کو پھیر دیا روزگار نے
کروٹ جولی مریض شب انتظار نے
انگڑائی لے کے کسی نے چٹکائیں انگلیاں
دو ہچکیوں میں ختم جو بیمار ہو گئے
یہ کہہ کر سرہانے مرے آ کے بیٹھے
ہٹو چارہ سازو کہ اب وقت کم ہے
اگر کہیں وہ دم واپسیں چلے آتے
ہم ایک سانس میں تفصیل آرزو کرتے
کہتی ہے روح آئی ہیں جتنی کہ ہچکیاں
اتنی ہی میں نے ٹھوکریں کھائی ہیں راہ کی
غرض کہ آج کل لکھنؤ کاہر شاعر اور موجودہ دبستان لکھنؤ کا ہر پیرو اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ غزل میں بجائے خارجی مضامین کے، جن کا لانا زمانۂ سابق میں ضروری تھا، داخلی مضامین داخل کرے مگر اس کے ساتھ ہی نزع، موت، جنازہ اور قبر وغیرہ کے متعلق خیالات بھی ضرور لائے۔ دہلی کے شعرا نے اپنے کلام میں اس قسم کا کوئی التزام نہیں رکھا۔
لکھنؤ میں مرثیہ کی شاعری کو زوال آ چکا ہے۔ اگرچہ موجودہ مرثیہ گوشاعر صبح کا منظر، گرمی کا سماں، اندھیری رات کی کیفیت، گھوڑے اور تلوار کے متعلق مبالغے، مدینہ سے کوچ کرنے کاعالم، رستے کی تکلیفیں، رفقائے امام کی جاں نثاریاں، فریق مخالف کی ستم گاریاں، اہل بیت کا عزیزوں کی موت پر بین وغیرہ مضامین اب بھی اپنے مرثیوں میں بیان کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مضامین انیس اور ان کے دیگر معاصر شعرا کمال کے درجے کو پہنچا چکے ہیں۔ اب کوئی گوشہ ان مضامین میں باقی نہیں رہا۔ اس بنا پر آج کل کے مرثیہ گویوں نے اپنے لیے ساقی نامہ کا ایک نیا کھانچہ پیدا کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ ساقی نامہ میں اپنا کمال دکھائے۔ مگر یہ مضمون بھی چند روزہ ہے۔ مثال کے طور پر یہاں ساقی نامہ کا ایک بند جو عارف کے مرثیہ سے لیا گیا ہے، پیش کیا جاتا ہے۔
ہاں ساقی مہر و کوئی جام آج پلا پھر
میں جس کا ہوں مشتاق وہ مے شیشے سے لا پھر
دے آئینہ طبع مصفّا کو جلا پھر
ہونٹوں سے چھلکتے ہوئے ساغر کو ملا پھر
لکھتا ہوں دغا ساقی کوثر کے خلف کی
جھوٹی بھی اگر می ہو تو رندان نجف کی
شعر کہنے کے وقت اردو شاعر کی نفسیات کیا ہوتی ہے، اس پر توجہ کرنے سے پہلے یہ امر واضح ہونا چاہیے کہ یورپ کی شاعری کا اقتضا اور ہے اور ہماری شاعری کا اور یورپ میں شاعر کے نزدیک خیال قافیہ پر مقدم ہے برخلاف اس کے ہمارے ہاں قافیہ خیال پر مقدم ہے۔ اس اختلاف کے سبب یورپ کے شاعر اور ہمارے شاعر کی نفسیات میں بڑا اختلاف ہو گیا ہے۔ یورپ کی قدیم زبانیں یونانی اور لاطینی بہت وسیع تھیں اور ان میں قافیے کے الفاظ کثرت سے مل سکتے تھے۔ تاہم انہوں نے ادائے خیال میں رکاوٹ پیدا ہونے کے لحاظ سے نظم عاری کو رواج دیا تھا۔ یورپ کی موجودہ زبانوں میں سے جرمنی، فرنچ اور انگریزی بھی وسیع ہیں اور ان میں بھی قافیے کے الفاظ بہت موجود ہیں۔ تاہم وہ بھی نظم عاری لکھ جاتے ہیں۔ لمبی نظمیں اکثر اسی رنگ میں ہیں۔
وسیع زبان میں قافیے کے الفاظ بکثرت ملنے سے خیال کے ادا کرنے میں بہت کم دشواری پیش آ سکتی ہے۔ تاہم مسلسل اور طویل خیالات میں ایک گونہ رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور قافیے بہ تکلف لانے پڑتے ہیں۔ اس بنا پر باکمال شعرا نے ادائے خیال کو مقدم سمجھ کر ضرورت کے وقت اس رکاوٹ کو دور کر دیا ہے۔ عربی زبان میں بھی الفاظ کی کثرت ہے او رقافیے کثرت سے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ لغت نویسوں نے لغت کی ترتیب میں جہاں ابتدائی حروف کا خیال رکھا ہے، وہاں آخری حروف کا بھی لحاظ کیا ہے اور دنیا کی تمام ڈکشنریوں کے برخلاف عربی کی ڈکشنریوں میں آخر کا حرف باب بنایا گیا ہے اور ابتدائی حرف کو بطور فصل کے رکھا ہے۔ عربی کی لغت کو بہ یک نظر دیکھنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی زبانوں میں شاعری کرنا کس قدر آسان ہے۔ جو قافیہ آپ اختیار کریں اس سے ہم وزن الفاظ آپ کو آسانی سے بہت مل جائیں گے۔ ایام جاہلیت کی شاعری عام طور پر قصائد کی شکل میں ہے۔ ہر قصیدہ میں ایک قافیہ اول سے آخر تک ہے اور ادائے خیال میں جو روانی ان شعرا کے کلام میں ہے، اس سے یہ نتیجہ صاف طور پر نکلتا ہے کہ ہر خیال کے ادا کرنے کے وقت مناسب قافیہ شاعر کے ذہن میں آسانی سے آ جاتا ہے۔
فارسی زبان میں الفاظ اس کثرت سے نہیں ہیں کہ مناسب قافیے آسانی سے خیال کے ادا کرنے کے وقت مل جائیں۔ یہ زبان بذات خود وسیع نہیں ہے۔ جب سے عربی زبان نے اس پر اثر ڈالا ہے اس میں الفاظ کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ تاہم جس کثرت سے عربی زبان میں ہم وزن الفاظ مل جاتے ہیں، اس کثرت سے اس زبان میں نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح اہل یورپ نے لمبی داستانوں کے لیے نظم عاری کا طریقہ اختیار کیا ہے، اہل ایران نے ایسی داستانوں کو مثنوی کی شکل میں ادا کیا ہے۔ مثنوی میں ہر شعر کے لیے صرف دو قافیے تلاش کرنے پڑتے ہیں جو اکثر آسانی سے مل جاتے ہیں۔
ہندوستان کی قدیم شاعری میں بھی لمبی داستانوں کے لیے یہی شکل اختیار کی گئی ہے۔ قصیدہ کی شکل میں ایسے طویل واقعات ادا نہیں ہو سکتے کیوں کہ اس کی بنیاد ایک قافیہ پر ہوتی ہے۔ اور اگرچہ عربی زبان میں ہم وزن الفاظ کثرت سے مل جاتے ہیں تاہم یہ بات ممکن نہیں ہے کہ ایک قافیے پر ساری داستان کی بنیاد رکھی جائے۔ یہی سبب ہے کہ عربی زبان میں لمبی منظوم داستانیں نہیں ملتیں۔ مثنوی کی شکل ایرانیوں نے اختیار کی ہے۔ عربی میں مثنویاں نہیں لکھی گئیں۔ اگر عربی میں مثنوی کی شکل اختیار کی جاتی یا نظم عاری کا طریقہ چل پڑتا تو پھر اس زبان میں بھی الیڈ اور شاہنامہ جیسی منظوم داستانیں مل سکتی تھیں۔ عرب کی عشقیہ طویل شاعری بھی قصیدہ کی شکل میں ہے۔ اگر ایرانی بھی اس قسم کی شاعری قصیدہ کی شکل میں کرتے اور تمام نظم کی بنیاد ایک قافیے پر رکھتے تو کام چل سکتا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ انہوں نے قافیے کے ساتھ ردیف کا دم چھلا لگا دیا۔
چونکہ غزلیں اکثر گانے کے کام میں آنی ہیں، اس بنا پر ایرانیوں نے خیال کیا کہ قافیہ کے ساتھ ردیف کا التزام نظم میں زیادہ موسیقیت پیدا کرےگا اور ردیف اور قافیہ ہر شعر میں آکر سننے والوں کے کانوں میں زیادہ متوازن معلوم ہوں گے۔ یہ لے یہاں تک بڑھی کہ بغیر ردیف کی غزلیں پسند نہیں آتی تھیں۔ اگر فارسی زبان کے دیوان اٹھاکر دیکھو تو ایسی غزلیں بہت کم ملیں گی جن میں قافیہ ہی قافیہ ہو اور ردیف نہ ہو۔ یہی باعث ہے کہ عشقیہ خیالات کا مسلسل طور سے بیان کرنا غزل کی شکل میں مشکل ہو گیا۔ قافیہ اور ردیف ادائے خیال پر مقدم ہو گئے۔ ایک شعر کامضمون دوسرے شعر کے مضمون سے جداگانہ ہونے لگا۔ یعنی ایک شعر سے دوسرے شعر کو کوئی تعلق نہیں رہا۔ اگر ایک شعر میں معشوق کی جدائی کی شکایت ہے تو دوسرے شعر میں وصال حاصل ہونے پر خوشی کا اظہار ہے۔ اگر ایک شعر میں دنیا کی مذمت بیان کی گئی ہے تو دوسرے شعر میں اس کی تعریف ہے۔ نظم کی یہ ایسی عجیب شکل ہے کہ دنیا کی کسی زبان میں اس کی مثال نہیں ملےگی۔ اس سے تمام شعرا مجبور ہو گئے کہ مسلسل غزلیں نہ لکھیں۔ فارسی شعرا کے دیوانوں میں مسلسل غزلیں اس قدر کم ملتی ہیں کہ ان کا عدم وجود برابر ہے۔
ایران کی شاعری اسی حالت میں تھی کہ وہ ہندوستان میں پہنچی۔ اول یہاں کے شعرا نے خود فارسی زبان میں اسی طریقہ کی غزلیں لکھنی شروع کیں۔ پھر جب اردو میں شاعری کا آغاز ہوا تو اسی طریقہ کی نقل اس زبان میں بھی کی گئی۔ اب تک غزل کا یہی طریقہ ہمارے ملک میں جاری ہے۔ اسی طریقہ کے سبب ہمارے شعرا جب غزل لکھنے بیٹھتے ہیں تو پہلے اس غزل کے لیے بہت سے قافیے جمع کرکے ایک جگہ لکھ لیتے ہیں، پھر ایک قافیہ کو پکڑ کر اس پر شعر تیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قافیہ جس خیال کے ادا کرنے پر مجبور کرتا ہے اسی خیال کو ادا کر دیتے ہیں۔ پھر دوسرے قافیہ کو لیتے ہیں، یہ دوسرا قافیہ بھی جس خیال کے ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے اسی خیال کو ظاہر کرتے ہیں، چاہے یہ خیال پہلے خیال کے برخلاف ہو۔ اگر ہماری غزل کے مضامین کا ترجمہ دنیا کی کسی ترقی یافتہ زبان میں کیا جائے، جس میں غیرمسلسل نظم کا پتہ نہیں ہے تو اس زبان کے بولنے والے نودس شعر کی غزل میں ہمارے شاعر کے اس اختلاف خیال کو دیکھ کر حیران رہ جائیں۔ ان کو اس بات پر اور بھی تعجب ہوگا کہ ایک شعر میں جو مضمون ادا کیا گیا ہے، اس کے ٹھیک برخلاف دوسرے شعر کا مضمون ہے۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ شاعر کا اصلی خیال کیا ہے۔ وہ پہلے خیال کو مانتا ہے یادوسرے خیال کو۔ اس کی قلبی صدا پہلے شعر میں ہے یا دوسرے شعر میں۔
مولانا حالی نے ا پنے دیوان کے مقدمہ میں خیالات شاعرانہ کے اس اختلاف و تناقض کا عذر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جس طرح ایک فلسفی یا مؤرخ کی تصنیف میں اختلاف پایا جانا اس تصنیف کو عجیب لگاتا ہے، اسی طرح شاعر کے کلام کو عیب نہیں لگاتا بلکہ اس کا بے ساختہ پن ظاہر کرتا ہے، جس کو شاعری کا زیور سمجھنا چاہیے۔ فلسفی یا مؤرخ ہر ایک چیز پر اس کے تمام پہلو دیکھ کر ایک مستقل رائے قائم کرتا ہے اور اس لیے ضرور ہے کہ اس کا بیان جامع و مانع ہو۔ لیکن شاعر کا یہ کام نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ ہر ایک شے کا جو پہلو اس کے سامنے آئے اور اس سے کوئی خاص کیفیت پیدا ہوکر اس کے دل کو بےچین کر دے اس کو اسی طرح بیان کرے۔ پھر جب دوسرا پہلو دیکھ کر دوسری کیفیت پیدا ہو جو پہلی کیفیت کے خلاف ہو، اس کو اس دوسری کیفیت کے موافق بیان کرے۔ وہ کوئی فلسفہ یا تاریخ کی کتاب نہیں لکھتا تاکہ اس کو حقائق و واقعات کے ہر ایک پہلو پر نظر رکھنی پڑے بلکہ جس طرح ایک فوٹو گرافر ایک ہی عمارت کا کبھی روکار کا، کبھی پچھیت کا، کبھی اس ضلع کا اور کبھی اس ضلع کا جدا جدا نقشہ اتارتا ہے، اسی طرح شاعر حقائق و واقعات کے ہر ایک پہلو کو جدا جدا رنگ میں بیان کرتا ہے۔
پس ممکن ہے کہ شاعر ایک ہی چیز کی کبھی تعریف کرے اور کبھی مذمت اور ممکن ہے کہ وہ ایک اچھی چیز کی مذمت کرے اور بری چیز کی تعریف، کیوں کہ خیر محض کے سوا ہر چیز میں شر کا پہلو اور شر محض کے سوا ہر شر میں خیر کا پہلو موجود ہے۔ عقل، علم، زہد، دولت، عزت اور آبرو عموماً ممدوح و مقبول سمجھی جاتی ہیں مگر شعرا نے ان کی جابجا مذمت کی ہے۔ اسی طرح دیوانگی، نادانی، رندی، فقر، ذلت اور ر سوائی عموماً مذموم و مردود گنی جاتی ہیں لیکن شعرا ان کے اکثر مداح رہتے ہیں۔‘
’’شاعر ایک ہی چیز کی کبھی ایک حیثیت سے ترغیب دیتا ہے اور کبھی دوسری حیثیت سے اس سے نفرت دلاتا ہے۔ وہ کبھی قدما کے مقابلے میں اس لیے کہ وہ استاد اور موجد فن تھے، اپنے تئیں ناچیز و بے حقیقت بتاتا ہے اور کبھی اس لیے کہ اس نے ان کی دولت میں کسی قدر اپنی کمائی بھی شامل کی ہے جو ان کے پاس نہ تھی، اپنے تئیں ان پر ترجیح دیتا ہے۔ وہ کبھی دنیا کی اس لیے تحقیر کرتا ہے کہ وہ دارالغرور اور دارالمحن ہے اور کبھی اس کی بڑائی اور عظمت اس لیے بیان کرتا ہے کہ وہ مزرعہ آخرت ہے۔ وہ ایک ہی گورنمنٹ کی کبھی اس کی خوبیوں کے سبب سے ستائش کرتا ہے اور کبھی اس کی ناگوار کارروائیوں کے سبب شکایت۔‘‘
شاعرانہ خیالات کے اختلاف و تناقض کی اس توجیہ کو جو مولانا حالی نے بیان کی ہے، ہم صحیح خیال نہیں کرتے۔ یہ تو سچ ہے کہ شاعر کے سامنے ایک شے کا جو پہلو آئے اور اس سے جو کیفیت اس کے دل پر طاری ہو اس کو ہو بہو بیان کرنا اس کا فرض ہے مگر یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ اس کیفیت کے طاری ہونے سے پانچ منٹ بعد اسی شے کا دوسرا پہلو اس کے سامنے اس طرح آئے کہ ایک متضاد و متناقض کیفیت پیدا کرے اور اس کو مجبور کر دے کہ وہ فوراً دوسرا متناقض خیال اسی زور سے اور اسی جوش سے بیان کرے جس زور اور جوش سے کہ اس نے پہلے خیال کو بیان کیا تھا۔ فوٹوگرافر اپنے کیمرے کو چشم زدن میں ایک طرف سے دوسری طرف موڑ دیتا ہے اور دوسری پلیٹ پر دوسرا عکس اتار لیتا ہے مگر ذہن انسانی کی یہ کیفیت نہیں ہے۔ اس پر ایک واقعے کا عکس جو سامنے ہے، پڑتا ہے اور اس سے ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت اس انسان کو بیتاب کرتی ہے کہ وہ اس کے متعلق اپنے جذبہ کو بیان کرے۔ جب تک یہ کیفیت اس کے ذہن سے محو نہ ہو جائے، اس کے برخلاف دوسرے واقعے سے کوئی بےچین کرنے والی کیفیت اس کے ذہن میں پیدا نہیں ہو سکتی۔
ذہنی پلیٹ سے پہلے واقعے کا عکس یا تو مٹ جانا چاہیے یا اس قدر دھندلا پڑ جانا چاہیے کہ گویا وہ کبھی محسوس ہی نہیں ہوا تھا۔ تب ممکن ہے کہ متضاد واقعہ اپنا عکس ڈال کر دوسری بیتابانہ کیفیت پیدا کر سکے۔ ایک ہی سانس میں دنیا کی مذمت اور اس کی مدح کسی شاعر کے ذہن میں ایسے جوش کے ساتھ پیدا نہیں ہو سکتی کہ وہ اس کو اظہار خیال پر مجبور کر دے۔ ایک ہی غزل کے ایک شعر میں دنیا کی مذمت اور دوسرے شعر میں اس کی مدح اور اسی طرح کے اور متناقض و متضاد خیالات اس قدر جلد بیان کرنا شاعری کو بے شک عیب لگاتا ہے اور اس سے صاف طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دونوں خیال جو ایک دوسرے کے برخلاف ہیں، اس کی ذہنی کیفیت کا پرتو نہیں ہیں بلکہ یہ ایک مصنوعی اظہار خیال ہے جس پر شاعر قافیہ اور ردیف کے اقتضا سے مجبور ہوا ہے۔
یہ کیوں کر ممکن ہے کہ شاعر ایک لمحہ میں ایک ہی چیز کی ترغیب دلاکر دوسرے لمحہ میں اس چیز سے نفرت دلائے۔ یہ انسان کی طبعی نفسیات کے برخلاف ہے۔ ہاں یہ بات بے شک ممکن ہے کہ ایک زمانہ میں شاعر مثلاً دنیا کو رغبت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور اس کی ہر شے اس کے دل پر ایک دلفریب عکس ڈالتی تھی اور اس کے جذبات کو رنگین کرتی رہتی تھی۔ اس زمانہ میں اگر شاعر اپنی اس ذہنی کیفیت کو بیان کرتا تو اس کا بیان سرتا پا دنیا کی دلکش کیفیتوں کی تصویر ہوتا اور اس سے سننے والوں کو ترغیب ہوتی کہ وہ بھی شاعر کی طرح دنیا کے دلچسپ رنگوں کا نظارہ کریں اور اس سے پورا لطف اٹھائیں۔ پھر اگر شاعر کو پے درپے ناکامیوں سے اور دل شکن واقعات کے مسلسل پیش آنے سے دنیا کی طرف سے نفرت ہو جاتی اور بیزاری کا جذبہ اس کے دل میں شدومد سے پیدا ہو جاتا تو اس دوسرے زمانہ میں وہ اپنی اس ذہنی کیفیت کو مایوسانہ لہجہ میں بیان کر سکتا تھا اور اس کا اثر بھی سننے والوں پر ضرور ہوتا، کیوں کہ شاعر کا بیان اس حالت میں بھی اس کی ذہنی کیفیت کی سچی تصویر ہوتا اور اس میں بھی صداقت اور جوش موجود ہوتا۔
پس ایک لمحہ کے بعد دوسرے لمحہ میں شاعر کے اختلاف بیان اور تناقض خیالات سے اس کا بے ساختہ پن ظاہر نہیں ہوتا اور نہ یہ بات شاعری کا زیو رہے بلکہ اس سے صداقت شعری پر حرف آتا ہے اور اس کے دل کی اصلی کیفیت کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ اس کی شاعری کے مصنوعی اور غیرحقیقی ہونے کی خبر دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ شاعر فقط نقال ہے۔ اس کی شاعری اس کی دل کی آواز نہیں ہے۔ وہ مختلف خیالات کو جو شعرا نے زمانۂ سابق میں وقتاً فوقتاً بیان کیے ہیں، بغیر اس کے کہ اپنی ذہنی کیفیت کی مہر ان پر لگائے، محض نقل و تقلید کے انداز سے بیان کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ شاعری کا سخت عیب ہے اور اس سے شاعری کی زینت نہیں ہوتی بلکہ تخریب ہوتی ہے۔ یہ شاعری نہیں بلکہ قافیہ پیمائی ہے۔
شاعر کسی فوری خیال یا اپنی کسی ذہنی کیفیت کو بیان کرنا نہیں چاہتا، بلکہ ہر قافیہ جس خیال کے اظہار پر اس کو مجبور کرتا ہے، بے پروائی سے اس کو باندھ جاتا ہے اور اس کی پروا نہیں کرتا کہ جو خیالات وہ جلد جلد بیان کر رہا ہے، ان میں کس قدر اختلاف یا تناقض ہے۔ یہی مقام ہے جہاں ہمارے شاعر کی نفسیات یورپ کے شعرا کی نفسیات سے مختلف ہو جاتی ہے۔ یعنی یہاں خیال پر قافیہ مقدم ہے اور وہاں قافیہ پر خیال کو مقدم سمجھتے ہیں۔
یورپ اور ہندوستان کے شعرا کی عام نفسیات میں جو اختلاف ہے، اس کے علاوہ خاص خاص شعرا کی نفسیات بھی ہمارے ہاں جداگانہ ہے اور یہ ہر ایک شاعر کے طبعی اقتضا کے موافق ہے۔ ایک گروہ شاعروں کا ہمارے ہاں ایسا ہے جو رات دن زبان باندھنے کے درپے رہتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو روز مرہ کی ترکیبوں اور زبان کے محاوروں کو روشناس کرے۔ یہ ترکیبیں اور محاورے ظاہر ہے کہ بجز ان عام خیالات کے جو عام لوگوں کے دلوں میں گزرتے رہتے ہیں اور جن کے لیے وہ ترکیبیں اور محاورے وضع کیے گئے ہیں، کسی نئے اور اعلیٰ خیال کو ادا نہیں کر سکتے۔ اس بنا پر اس گروہ کے شعرا پیش پا افتادہ خیالات کو باندھنے پر مجبور ہیں۔ ذوق انہیں شعرا کے گروہ میں داخل ہے۔ جیسا کہ ایک مضمون نگار نے رسالہ اردو میں اس کی اور غالب کی شاعری کا مقابلہ کرکے دکھایا ہے۔
اس قسم کے شعرا دانستہ ایسی زمینیں غزلوں کے لیے انتخاب کرتے ہیں، جن میں ردیف کوئی فعل ہو یا فعل کے مشتقات میں سے ہو، پھر کوشش کرتے ہیں کہ اس فعل کے ساتھ مختلف لفظوں کے ملانے سے جتنے محاورات بنتے ہیں حتی الوسع ان سب کو باندھ دیں۔ مثلاً ایک شاعر نے غزل کی ردیف ’’اٹھایا‘‘ اختیار کی ہے۔ ’’اٹھانا‘‘ کے ساتھ مختلف لفظوں کے ملانے سے جو محاورے بنے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں اور اس شاعر نے ان سب محاوروں کو اس غزل میں باندھ دیا ہے۔ داغ اٹھانا، فتنہ اٹھانا، آنکھ اٹھانا، سر اٹھانا، قدم اٹھانا، ہاتھ اٹھانا، بیڑا اٹھانا، نقاب اٹھانا، ناز اٹھانا، باگ اٹھانا، ایذا اٹھانا، طوفان اٹھانا، لطف اٹھانا، مصیبت اٹھانا، مونہہ اٹھانا۔
ایک غزل کی ردیف ہے ’’اڑاتے۔‘‘ اس میں شاعر نے حسب ذیل محاورے کھپائے ہیں۔ خاک اڑانا، لطف اڑانا، نشانہ اڑانا، رنگ اڑانا، پرزے اڑانا، چٹکیوں میں اڑانا، خاکہ اڑانا۔ ایک غزل کی زمین ہے ’’بگڑا۔‘‘ اس میں یہ محاوے لائے گئے ہیں۔ کام بگڑنا، منہ بگڑنا، مزاج بگڑنا، چلن بگڑنا، بدن بگڑنا، نقشہ بگڑنا۔ پکڑے کی ردیف میں ایک شاعر نے حسب ذیل محاورے خرچ کیے ہیں۔ گوشہ پکڑنا، زبان پکڑنا، ہاتھ پکڑنا، رات پکڑنا، دودن نہ پکڑنا، دل میں جگہ پکڑنا، دل پکڑنا، کان پکڑنا، بات پکڑنا، دامن پکڑنا، نذر پکڑنا۔ ’’توڑے‘‘ کی ردیف میں ایک شاعر نے ان محاوروں کو استعمال کیا ہے۔ توبہ توڑنا، دل توڑنا، گھر توڑنا، ہمت توڑنا، پاؤں توڑنا، بدن توڑنا، عرش کے تارے توڑنا۔ ایک غزل کی ردیف ہے ’’کھا چکے۔‘‘ اس میں یہ محاورے کھپائے گئے ہیں۔ شکت کھانا، دھوپ کھانا، رحم کھانا، قسم کھانا، فریب کھانا، زخم کھانا، بل کھانا، پیچ و تاب کھانا، غصہ کھانا، غوطہ کھانا، مغز کھانا، تلوار کھانا، ٹھوکر کھانا، کان کھانا، رشک کھانا، جوش کھانا۔
ایک مرثیہ گوشاعر نے اپنے سلام کی ردیف ’’کھینچتے ہیں‘‘ رکھی ہے۔ اس نے اس سلام میں ان محاوروں سے کام لیا ہے: خنجر کھینچنا، خمیازہ کھینچنا، دامن کھینچنا، ہاتھ کھینچنا، پاؤں کھینچنا، طول کھینچنا، تصویر کھینچنا، شکنجے میں کھینچنا، اپنے تئیں دور کھینچنا، سختیاں کھینچنا، سر کو آسمان تک کھینچنا، ایذا کھینچنا، رگ رگ سے جان کھینچنا، باگ کھینچنا، دار پر کھینچنا، نقشہ کھینچنا، خجالت کھینچنا، کسی چیز پر قلم کھینچنا۔۔۔
ایک غزل کی ردیف ہے ’’نکالیے۔‘‘ اس میں شاعر نے یہ محاورے صرف کیے ہیں۔ ارمان نکالنا، دل کا بخار نکالنا، مونہہ سے اف نہ نکالنا، اشاروں میں کام نکالنا، وحشت میں پاؤں نکالنا، عیب نکالنا، نام نکالنا، آنکھیں نکالنا، بل نکالنا، راہ نکالنا، تدبیر نکالنا، شعر کی زمین نکالنا، دل سے کھٹکا نکالنا، کسی کا ذکر نکالنا، آرزو نکالنا، بات بات میں شر نکالنا، جوہر نکالنا، پر پرزے نکالنا، قدم نکالنا، نیارنگ نکالنا، مطلب نکالنا، سر نکالنا۔
غرض کہ اس قسم کے شعرا ہمیشہ اس بات پر درپے رہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو، زبان کے محاوروں، روزمرہ کی ترکیبوں اور ضرب المثلوں کو اپنے کلام میں کھپائیں۔ ان کو شاعرانہ تخیل یا اعلیٰ خیالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ظفر کے چاروں دیوان اسی قسم کی شاعری سے بھرے ہوئے ہیں۔ آج کل کے بہت سے شاعر بھی جو مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں، رات دن اسی دھن میں مبتلا رہتے ہیں۔ برخلاف اس کے دوسری قسم کے شعرا وہ ہیں جو باوجود ردیف قافیے کی پابندی کے اعلیٰ خیالات اور لطیف حسیات کے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ عام طور پر ایسے شعرا آسان ردیفیں اختیار کرتے ہیں اور ایسے قافیے لاتے ہیں جن میں خیالات کا ادا کرنا مشکل نہ ہو۔ میر، درد اور غالب اسی گروہ میں داخل ہیں۔ اگرچہ اپنے زمانہ کے اقتضا سے وہ کبھی کبھی دوسری قسم کی زمینیں اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں مگر عام میلان ان کا وہی ہے جو بیان کیا گیا ہے۔
حالی کے زمانہ سے شاعری میں جو انقلاب ہوا، اس کے اقتضا سے فطرت نگار شاعروں نے قافیہ پیمائی چھوڑ دی ہے۔ وہ غزل کی طرح اکثر ایک ردیف پر قناعت نہیں کرتے۔ یا تو بغیر ردیف کے صرف قافیہ اپنی نظموں میں لاتے ہیں اور قافیہ ایسا اختیار کرتے ہیں جس کے ہم وزن الفاظ کثرت سے ہوں۔ مثلاً رواں، تپاں، زمین، جبیں، دریا، صہبا، لاتا ہے، کھاتا ہے، رفتار، گفتار، کمال، جمال، قلم، حرم، تحریر، تصویر، دیوان، عریاں، ملت، قدرت، بہار، غبار، چمن، سخن، بسمل، کامل وغیرہ۔ یا ردیف بہت چھوٹی اختیار کرتے ہیں جو ادائے خیال میں خلل انداز نہ ہو۔ مثلاً پر، میں، سے، کو، ہے، ہیں، ہو، تھا، تھی، تھے، کا، کے، کی، لے، تک وغیرہ۔ یا ترکیب بند کی شکل میں اپنے خیالات کو ادا کرتے ہیں اور ترکیب بند میں ہر بند کے اشعار کی تعداد برابر نہیں رکھتے۔ جو خیال ایک بند کے جتنے اشعار میں ادا ہو جائے اتنے اشعار پر قناعت کرتے ہیں یا مثنوی کے طرز میں ادائے خیال کی کوشش کرتے ہیں۔ فارسی زبان کے شعرا نے مثنوی کی بحریں حسب ذیل رکھی ہیں اور اکثر مثنویاں انہیں بحروں میں لکھی گئی ہیں۔
(اول) ہرج مسدس مقصور جس کا وزن ہے مفاعیلن مفاعیلن مفاعیل۔ آخر کار کن مفاعیل کی جگہ فعولن بھی ہو جاتا ہے۔ اس زلالی بحر میں جامی کی یوسف زلیخا، نظامی کی شیریں خسرو، زلالی کی مثنوی، ناصر علی کی مثنوی اور غنیمت کی مثنوی نیز نگِ عشق لکھی گئی۔
(دوم) ہرج مسدس اخرب مقبوض مکفوف۔ جس کا وزن ہے مفعول مفاعلن مفاعیل اور مفاعیل کی جگہ فعولن لانا بھی جائز ہے۔ اس بحر میں فیضی کی مثنوی نل دمن، خاقانی کی مثنوی تحفۃ العراقتین اور نظامی کی مثنوی لیلیٰ مجنوں لکھی گئی ہے۔
(سوم) رمل مثمن جس میں صدر اور ابتدا سالم ہیں اور حشو مجنوں ہے اور عروض اور ضرب مجنون و محذوف ہیں۔ اس کا وزن ہے فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن، اس بحر میں میر نجات کی مشہور مثنوی گل کشتی لکھی گئی ہے۔
(چہارم) رمل مسدس محذوف جس کا وزن ہے فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔ آخر رکن فاعلات بھی ہو جاتا ہے۔ اس بحر میں مولانا روم کی مثنوی معنوی، شیخ فرید الدین عطار کی مثنوی منطق الطیر اور بہاء الدین آملی کی مثنوی نان و حلوا لکھی گئی ہے۔
(پنجم) بحر سریع مطوی موقوف جس کا وزن ہے مفتعلن مفتعلن فاعلان۔ آخر کار کن فاعلن بھی آ سکتا ہے۔ اس بحر میں امیر خسرو کی مثنوی قران السعدین، نظامی کی مثنوی مخزن اسرار، نیز مثنوی مطلع الانوار لکھی گئی ہے۔
(ششم) بحر خفیف مسدس جس میں صدر و ابتدا سالم اور باقی مقطوع۔ اس میں اگر عروض فعلن آئے اور ضرب فعلات یا فعلان یا اس کے برعکس عروض فعلات یا فعلان آئے اور ضرب فعلن آئے تو دونوں صورتیں جائز ہیں۔ اس کا وزن ہے فاعلاتن مفاعلن، فعلن۔ فعلن کی جگہ فعلات یا فعلان بھی آ سکتا ہے۔ اس بحر میں مثنوی نام حق، مثنوی مامقیمان، نظامی کی مثنوی ہفت پیکر، امیر خسرو کی مثنوی ہشت بہشت اور حکیم سنائی کا حدیقہ لکھا گیا ہے۔
(ہفتم) بحر متقارب مثمن مقصوریا محذوف۔ اس کا وزن ہے فعولن فعلولن فعول۔ آخری رکن فعول کی جگہ فعل بھی لایا جا سکتا ہے۔ اس بحر میں فردوسی کی یوسف زلیخا، فردوسی کا شاہنامہ، سعدی کی کریما، سعدی کی بوستاں، نظامی کا سکندر نامہ اور ملاہاتفی کا ظفرنامہ لکھا گیا ہے۔
(ہشتم) بحر متدارک مثمن مقطوع۔ جس کا وزن ہے فعلن فعلن فعلن فعلن۔ اس بحر میں میر کی مثنوی جوش عشق لکھی گئی ہے مگر اس وزن میں میر نے طرح طرح کے تغیر کیے ہیں۔ کہیں تو بالکل یہی وزن رکھا ہے، کہیں فعل فعولن فعل فعولن کہیں فعلن فعلن فعل فعولن ہے۔ کہیں فعل فعولن فعلن فعلن، کہیں فعل فعولن فعل۔ فارسی کی کوئی مثنوی اس بحر میں مشہور نہیں۔ مولانا حالی کی مثنوی مناجات بیوہ بھی اسی بحر میں ہے۔
(نہم) بحر متقارب مثمن اثلم، جس کا وزن ہے فعلن فعولن فعلن فعولن۔ اس بحر میں مولانا حالی نے اپنی مثنوی حکمۃ الحق لکھی ہے۔ فارسی میں کوئی مثنوی اس بحر میں مشہور نہیں۔ مگر زمانہ حال کے شاعرانہ انقلاب نے شعرا کو مثنوی کی ان بحروں پر محدود اور قانع نہیں رکھا۔ وہ تقریباً تمام بحروں میں مثنوی لکھتے ہیں۔ اس سے اظہار خیال کے لیے میدان بہت وسیع ہو گیا ہے۔ شاعر کو ہر شعر کے سرانجام کرنے میں صرف دو قافیے سوچنے پڑتے ہیں جو موقع پر نہایت آسانی سے خیال میں آ جاتے ہیں اور خیال کے تسلسل اور روانی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
یہ آخری طریقہ یعنی مثنوی کے پیرایہ میں ادائے خیالات آج کل زیادہ مقبول ہوتا جاتا ہے اور چونکہ مثنوی کی ان بحروں پر شاعروں نے ادائے خیال کو محدود نہیں رکھا جو قدیم زمانہ سے مسلمہ ہیں، اس لیے اس طریقہ میں وسعت اور گنجائش زیادہ نکل آئی ہے۔ مولانا حالی نے برکھا رت، نشاط امید، حب وطن، مناجات بیوہ، کلمتہ الحق وغیرہ مثنویاں چھوٹی ہی بحروں میں لکھی ہیں۔ مگر آج کل مثنوی کے لیے طویل بحریں اختیار کرنے کامیلان پایا جاتا ہے۔ یہاں مثال کے طور پر زمانۂ حال کی مثنویوں کے دو دو شعر درج کیے جاتے ہیں۔
اس ہال کے اندر حوض جو تھا فوارے اس میں اچھلتے گئے
دھاریں جو ہوئیں پانی کی رواں دھاروں سے راگ نکلتے گئے
پھر گھنگروؤں کی چھم چھم کی صدا اس ہال کے فرش سے آنے لگی
یہ ناچ کی دھن کچھ سازوں کو بجنے کے لیے اکسانے لگی
تارے سے ہیں چمکتے ہوئے یاسمین کے پھول
حیراں ہیں جن کو دیکھ کے سارے چمن کے پھول
ہیں لمبی لمبی ڈالیاں چھائی زمین پر
چھتری سی ہے جنھوں نے بچھائی زمین پر
بعض اودے ہیں مگر بعض ہیں پیلے شہتوت
کیا ہی قدرت نے بنائے یہ رسیلے شہتوت
لذت بادۂ کوثر ہے تو شہتوت میں ہے
شہد جنت کامزہ گر ہے تو شہتوت میں ہے
پیپل کے ہر درخت پہ طوطوں کے ہیں پرے
چونچیں ہیں لال لال بدن ہیں ہرے ہرے
چھوٹے پھلوں کو پھینکتے ہیں وہ کتر کتر
مینہ سا برس رہا ہے زمیں پر پٹر پٹر
یاں ہوا آزاد ہے موجیں یہاں آزاد ہیں
سب پرند آزاد ہیں سب مچھلیاں آزاد ہیں
حسن لیتا ہے یہاں لہریں پڑا چاروں طرف
ہے خوشی چاروں طرف اور ہے ضیا چاروں طرف
میں ہوں شمع محفل زندگی میرا نام عہد شباب ہے
مرا سانس باد بہار ہے مری چال موجِ شراب ہے
مری عمر کی ہیں جو ساعتیں ہوئی عشرتوں میں تمام ہیں
یہی قہقہے یہی چہچہے مری زندگی کے پیام ہیں
ہے مرے دل میں بھی یہ تمنا یوں ہی رہوں بے نام و نشاں
اہل جہاں سے دور رہوں اور دور ہوں مجھ سے اہل جہاں
کشمکش جذبات سے میرا دامن عصمت چاک نہ ہو
پاک رہوں اور پاک ہی جاؤں گھر میں مرے گوخاک نہ ہو
اے شیکسپیئر اے دل انساں کے مصور
فطرت کے مظاہر ترے دل پر ہوئے ظاہر
وسعت میں تری روح سمندر سے بڑی ہے
رفعت میں نظر تیری ستاروں سے لڑی ہے
ملک کا سرمایۂ بقا ہے انہیں سے
قوم کا سامان ارتقا ہے انہیں سے
گرثمر شاخ آرزو ہیں تو یہ ہیں
جو ہر شمشیر آبرو ہیں تو یہ ہیں
اے آریو آؤ قدم رکھو ان حسن بھرے گلزاروں میں
جنت کے مزے لوٹوگے سدا اس پاک زمین کی بہاروں میں
تم گنگ و جمن کے کناروں پر شہر اپنے نئے آباد کرو
گاگاکے بھجن کر کر کے ہون ہو جاؤ مگن دل شاد کرو
وہ راگ جسے ہنگام سحر گانی ہے ہوا گلزاروں میں
وہ راگ جسے چشموں کی زباں کرتی ہے ادا کہساروں میں
وہ راگ جو ہے موجوں کو رواں اس وحشت خیز سمندر میں
وہ راگ شراب تند بھری ہے جس کے بھنور کے ساغر میں
وہ راگ جسے گاگاکے سداآتے ہیں پرندے مستی میں
وہ راگ چھپی ہے جس کی صدا ہر رینگنے والی ہستی میں
اس راگ نے اپنی الاپوں سے لبریز کیے ہیں کان مرے
پھر جاگ اٹھے ہیں مرے جذبے پھر زندہ ہوئے ارمان مرے
خون اس کی نگاہوں سے ہر لحظہ ٹپکتا ہے
ہے ہاتھ میں جو چاقو بجلی سا چمکتا ہے
ہے کاٹتا اک دم وہ سرسبز نہالوں کو
رحم ان پہ نہ کیوں آئے سب دیکھنے والوں کو
جب نیم کی شاخیں ٹھنڈی ہوا کھا کھا کے تھرکنے لگتی ہیں
پھر زریں کرنیں سورج کی پتوں پہ چمکنے لگتی ہیں
پتوں کی رگوں میں نیم کا رس ہے دوڑتا پوری سرعت سے
یہ ریشہ دوانی دیکھ کے میں تصویر بنا ہوں حیرت سے
مرے دل میں اٹھتے ہیں ولولے کہ ہوں کاش بادِبہار میں
کبھی غنچے پر ہو مرا گزر کبھی پھول سے ہوں دوچار میں
کبھی گلشنوں کو بتاؤں میں وہ جو ضابطے ہیں سنگار کے
کبھی بلبلوں کو سکھاؤں میں وہ جو زمزمے ہیں بہار کے
ہے طبع رواں دب کر جمگھٹ میں کچل جاتی
برگوں کے تلے آ کر ہے گھاس بھی جل جاتی
جو ذہن کہ خلوت میں کر سکتے تھے ایجادیں
جلوت میں وہ جب پہنچے سب گر گئیں بنیادیں
لطف ہوا سے بو پہ بو پھیل رہی فضا میں ہے
معجزہ نوبہار کا جلوہ گر اس ہوا میں ہے
عکس مشام پر مگر جب نہ پڑے شمیم کا
کیجیے کس سے تذکرہ تازگی نسیم کا
سرہانے اک مریض مرے ہے شمع زرد جل رہی
برنگ مورنا تواں ہے نبض اس کی چل رہی
یکایک اس کے چہرے پر جھلک سی آکے رہ گئی
جو زندگی کی موج تھی وہ تلملا کے رہ گئی
وہ گلوں کی روشنی سے نظروں کا دنگ ہونا
وہ برنگ باغِ رضواں چمنوں کا رنگ ہونا
وہ شمیم عطر گل کا سر رہ گزر مہکنا
وہ نسیم مشک چین کالب غنچہ سے لپکنا
کس قدر بلندی پر تھا کبھی مکان میرا
شاخ سبز طوبیٰ پر تھا اک آشیاں میرا
حوریں کس مسرت سے گود میں بٹھاتی تھیں
زمزمے مرے سن کر خود بھی سرہلاتی تھیں
یہ زمین پر چمنستان وہ بلندی پہ ستارے
مرے دل سے کوئی پوچھے تو یہ جلوے ہیں تمہارے
کبھی خوشبو کی اگر لہر سی پاتا ہوں فضا میں
تو سمجھتا ہوں کہ تم بال سکھاتے ہو ہوا میں
صبح یوں ہی آئےگی شام یوں ہی آئےگی
گردش دور زماں رنگ یوں ہی لائےگی
زمزمے مرغ چمن یوں ہی سدا گائیں گے
پھول یوں ہی باغ میں رنگ نیا لائیں گے
ہے حادثوں میں پنہاں حکمت کا ایک اشارا
جرا حیاں ہیں گویا قدرت کی آشکارا
نشتر سے حادثوں کے چیرے نہ گروہ پھوڑے
فاسد مواد ان کو زندہ کبھی نہ چھوڑے
سمندر اے دل خالق کے اضطراب سمندر
چھپے تو رکھتا ہے کیا انقلاب سینے کے اندر
غرور عقل عشر کے ڈبو چکا ہے تو لاشے
اب اور دیکھیے کیا کیا دکھائے گا تو تماشے
جولاں گہ اظہار لیاقت اسے کہیے
گہوارۂ تعلیم فصاحت اسے کہیے
ذہنوں کی ترقی کا جو میداں ہے تو یہ ہے
آداب تمدن کا دبستاں ہے تو یہ ہے
ایک ہنگامہ تھا برپا مرے ارمانوں میں
برق مضطر کی تڑپ تھی مری شریانوں میں
صرصر رنج کے جھوکے جو گذر جاتے تھے
دفتر قلب کے اوراق بکھر جاتے تھے
کیا برق و باد کا طوفاں تھا، تھی جس سے فضا میں پڑی ہل چل
اب تو ہی نشانی ہے باقی طوفاں کی اے تنہا بادل
دل تیری گرج سے دہلتے تھے لرزہ تھا پڑا جانداروں میں
گویا تھا سمندر ٹوٹ پڑا پانی کی لپکتی دھاروں میں
اس بہشت زندگی سے نوجواں غافل نہ ہوں
عیش کے مشتاق ہیں تو طیش پر مایل نہ ہوں
لذت اخلاق شیریں ان کو چکھنی چاہیے
من و سلوا کی حفاظت ان کو رکھنی چاہیے
لہجۂ بلبل کو فریاد زغن ہونے نہ دیں
نغمۂ وحدت کو شور ماومن ہونے نہ دیں
میل کی کھیتی پہ پانی سیل کا پھرنے نہ دیں
مہر کے خرمن پہ بجلی قہر کی گرنے نہ دیں
جس کو دیکھا تھا کبھی گلشن وہ گلخن ہو نہ جائے
جس کو سمجھے تھے کبھی مسکن وہ مدفن ہو نہ جائے
صر صر دوزخ کو اس فردوس میں چلنے نہ دیں
نخلِ طوبیٰ کی جگہ زقوم کو پھلنے نہ دیں
نوح کی کشتی پہ طوفاں کا اثر ہونے نہ دیں
جنت آدم میں شیطاں کا گزر ہونے نہ دیں
تیوروں پر لطف کے غصے کے بل آنے نہ دیں
عہد میں الفت کے کلفت کا خلل آنے نہ دیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |