Jump to content

اردو کی موجودہ ضروریات

From Wikisource
اردو کی موجودہ ضروریات
by برجموہن دتاتریہ کیفی
319536اردو کی موجودہ ضروریاتبرجموہن دتاتریہ کیفی

چونکہ تھوڑے وقت میں بہت کچھ کہنا ہے اس لئے اردو سے متعلق کئی اہم امور کو مسلمہ مان کر چھوڑ دیا جائے گا۔ ان پر استدلال و توجیہ سے کام نہیں لیا جائے گا۔ کیا ان بدیہی صداقتوں سے کسی کو انکار ہو سکتا ہے کہ اردو زندہ زبان ہے، اردو بہ حیثیت ایک زبان کے اعلیٰ ترین ترقی کے امکان رکھتی ہے، اردو توسیع پذیر ہے، اس کی اشاعت روز افزوں ہے، اس کی زبان اور ادب میں ہمیشہ ترمیم و اصلاح ہوتی رہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک تو آپ مجھ سے متفق ہوں گے۔ اب یہ کہنا ہے چونکہ ہم سب اردو کے حامی ہیں اور دل سے اس کی ترقی چاہتے ہیں، اس لئے یہ دیکھ بھال ہمارا فرض ہے کہ زبان کے کس شعبے یا شق میں اصلاح و ترقی کی ضرورت ہے اور موانع جو ترقی کے مزاحم ہوں انہیں دور کرنا۔ اولیات یا مبادیات سے دست بردار ہو کر براہ راست موضوع سے رجوع لاتا ہوں۔نہایت محتاط تحلیل سے کام لے کر ہم ان دو حقیقتوں پر پہنچتے ہیں۔ یعنی یہ دریافت کرتے ہیں کہ زبان کی ترقی کے لئے دو چیزیں لابد ہیں، (1) الفاظ یا کلمات کا وافی ذخیرہ اور (2) ان کی تنظیم یعنی انشا کہئے۔ جملوں کا ایسا اسلوب جو منشی یا متکلم کے مافی الضمیر کو بوجہ احسن ظاہر کر سکے اور کار آمد و متداول علوم و فنون سے متعلق اظہار بیان کی طاقت رکھتا ہو۔ابتدا ہی میں یہ واضح کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں امور جن کا ابھی ذکر ہوا، زبان کی ساخت اور ترکیب سے ہر نوبت پر متاثر ہوتے ہیں۔ اردو کے اجزائے ترکیبی ہندی زبانیں اور فارسی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں میں نے ہندی زبانیں کہا ہے، اس سے میری مراد ہے ہندوستان کی دیسی زبانیں۔ اردو کا لسانیاتی موازنہ آپ پر واضح کرے گا کہ اردو۔۔۔ ہماری آج کل کی اردو۔۔۔ میں ہندوستان کی بہت سی زبانوں سے استفادہ ہوا ہے جن میں برج بھاشا، ماگھدی غرض کہ شور سینی کی کئی شاخیں یعنی اپ بھرنش بولیاں اور گجراتی وغیرہ شریک ہیں۔حیرانی ہوگی کہ عربی اور سنسکرت کا نام کیوں نہیں لیا گیا۔ سنیئے عربی اور سنسکرت سے تصرف کے ساتھ یا بلا تصرف ہم نے صرف مفرد کلمات اور چند مرکبات لئے ہیں۔ ہمارے بیان کا طرز ان کے بیان سے متاثر نہیں ہوا۔ پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر چہ سنسکرت کے مقابلہ میں عربی کلمات کی شرکت اردو میں زیادہ ہوئی لیکن لسانیاتی تاثر کا جہاں تک تعلق ہے اور صرفی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہماری زبان عربی سے زیادہ سنسکرت سے براہ راست یا بالواسطہ مستفید ہوئی ہے۔اب سنیئے! اردو پہلے پہل مقامی اور وقتی ضروریات سے فعل طبیعی کی طرح پیدا ہو گئی۔ اس طرح مدتوں چلتی رہی۔ پھر اس کی طرف اہل علم کی توجہ ہوئی۔ انہوں نے اس کے قواعد مرتب کئے، اصول قائم کئے، آئین اور دستور باندھے، یہاں سے اردو کی تنسیق و تنظیم شروع ہوئی جو انیسویں صدی عیسوی کے شروعات تک برابر جاری رہی۔اتنا کہہ کر اب میں تنقیح نمبر ایک کو لیتا ہوں۔ عہد گذشتہ کی ضروریات کو زیر نظر رکھ کر بے تامل کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں کلمات کا ذخیرہ کافی و وافی ہے، متقدمین نے اپنی ضروریات کے مطابق یہ ذخیرہ اچھا پیدا اور فراہم کر لیا تھا۔ متوسطین نے اس کی تنسیق میں کار نمایاں کیا متاخرین نے اگر کیا تو یہ کہ نہ صرف اسلاف کے مساعی مشکور پر پانی پھیر دیا بلکہ اردو کو اشتقاقی قوت اور اختراعی قابلیت سے نادانستہ محروم کرنے میں کسر نہ رکھی۔ کیا تو یہ کہ لفظی صناعی اور تخیلی صناعی سے کلام کی فطری خوبی اور سادگی کا خون کر دیا۔ بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ کم و بیش پچھلی نصف صدی میں اصلاحی ضروریات سے قطع نظر اردو میں ایک مفرد کلمہ، ایک مرکب بھی ایزاد نہیں ہوا۔یہی نہیں ہوا بلکہ اکثر کام کے الفاظ قلیل الااستعمال ہو کر نکمے اور متروک بن گئے۔ ان بزرگواروں نے کیا تو یہ کیا کہ سیدھی سادھی اردو ترکیبیں اور کلمے چھوڑ کر فارسی اور عربی لغات کی بھر مار کر دی۔ دیکھنا کو نظر انداز کیا اور نظر کرنا، تماشا کرناا س کی جگہ استعمال کیا۔ کہاں وہ اسلاف جنہوں نے بخشنا، بدلنا، آزمانا، لرزانا گرمانا، خریدنا، شرمانا، فرمانا وغیرہ مصدر اردو کو بخشے اور کہاں یہ حضرات ٹھیٹھ اردو میں ان کی جدت اور اشتقاقی وجاہت دیکھئے، کھاو، نکھٹو، گلچھرے، ہنس مکھ، منہ پھٹ، ہتھ چھٹ، سمجھ دار، دیوانہ پن وغیرہ سینکڑوں مرکب بنا ڈالے جو معنی کی بیش بہا دولت کے مالک ہیں۔متاخرین کے کارنامے صرف یہ ہیں کہ انہوں نے اردو کا باقاعدہ سیکھنے سکھانے کا تو کبھی خیال تک نہ کیا مگر ضرورت پر یا بے ضرورت کلام کو برہان اور قاموس کا ملخص بنا دیا۔ وہ بھی ہیں جو قدم قدم پر امر کوش اور شبد کلپدرم کے دروازے پر الکھ جگائے رہتے ہیں۔ لیکن آپ ہی دیکھئے کہ ادبی دنیا میں ان مہاپرشوں کو کہاں تک جگہ دی جاتی ہے۔ یہ لوگ نہ اردو کے اہل ہیں اور نہ ہندی کے۔ لسانی حریت حریت فکر کی ماں ہے۔ آپ اپنی زبان میں دوسری زبانوں کے دست نگر اور قرض دار رہیں گے تو حریت فکر و تخیل آپ سے دور ہو جائے گی۔ اردو کوئی صرفی زبان تو ہے نہیں کہ مادوں سے کلمے بناتے جائیے۔ یہ اپنے اجزائے ترکیبی کی زبان سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے،زہر خرمنے خوشہ یافتمیہ خوشہ چینی اب بھی ناگزیر ہے اور اس کا تمول بڑھ سکتا ہے، بشر طیکہ ہم اعتدال اور سلیقہ سے کام لیں۔ اس بارے میں سلیقے کی تعریف تشریح طلب ہوگی۔ یہ کام ڈیڑھ صدی کے قریب زمانہ گذرا، سید انشا کر گئے، فرمایا ہے،’’واضح رہے کہ ہر لفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا، عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، ازروئے اصل غلط ہویا صحیح وہ لفظ اردو کا لفظ ہے، اگر اصل کے مطابق ہو تو بھی صحیح ہے اور اگر اصل کے خلاف مستعمل ہے توبھی صحیح ہے۔ ا س کی صحت و غلطی اردو میں اس کے استعمال پر منحصر ہے کیونکہ جو اردو کے خلاف ہے، غلط ہے، خواہ وہ اصل زبان میں صحیح ہو اور جو اردو کے مواقف ہے خواہ وہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو، صحیح ہے۔ (دریائے لطافت ص، 241)متاخرین نے طلسم لسان کے اس اسم اعظم کو بھلا کر اردو کو غیر زبانوں کو کنوڈا کر دیا۔ فرماتے ہیں عرصہ عربی میں مدت کے معنی میں نہیں آتا، اس لئے اس معنی میں لانا غلط ارشاد ہوتا ہے۔ فارسی میں از خود رفتہ تھا، آپ کا خود رفتہ بولنا صحیح نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ماخذ پرستی ہی نہیں بلکہ وہ جبر و استبداد ہے جس کے مرتکب ادبی سخت جان لسانیات اور ادبیات میں ہر کہیں اور ہمیشہ ہوا کرتے ہیں۔عربی، فارسی، سنسکرت اور فرنگی کلمے اردو میں ہیں اور رہیں گے اور آئیں گے، مگر اسی نوع سے جیسا کہ سید انشا نے فرمایا۔ بحث ضرورت تلفظ اور معنی ہی سے تو ہے۔ ہم نے دھرم کودھرَم اور کرم کو کرَم اور موسِم کو موسَم بنا دیا۔ ہم آتما یا روح کو نفس یعنی مرکز احساسات وجذبات کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم حور (صیغہ جمع) کو واحد قرا ر دے کر اس کی جمع حوروں اور حوریں لاتے ہیں۔ سنسکرت کے بیاکل کو ہم نے بیکل بنا دیا۔ ارواح روح کی جمع ہے، ہم نے کہا اس کی ارواح خوش ہوئی۔ ارواح شرمانا، آپ میں سے بعض اپنے دل میں ضرور کہہ رہے ہوں گے کہ یہ کہاں کا کھٹراگ لے بیٹھے۔ کوئی غزل سنائیں۔ گوبر گنیش اور صلواتیں سنانا صاف کہہ رہے ہیں کہ مقدس کلمے بھی اردو کے تصرف سے نہ بچ سکے۔زبان صرفی ہو یا غیر صرفی دونوں زبانوں کے کلموں کے شمول سے نہیں بچ سکتی۔ اس کا تو ذکر ہی کیا کہ بھگوت گیتا میں کئی کلمے پراکرت کے بتائے گئے۔ کلام مجید میں ایک سو کے قریب کلمے غیر عربی زبانوں کے موجود ہیں۔ آج کل کی عربی زبان میں جس کا لغات (لغات جدید) سید سلیمان ندوی نے مرتب کیا، غیر زبانوں کے سینکڑوں لفظ شامل ہیں۔ اسی طرح غیر زبانوں یعنی عربی، فارسی، سنسکرت ہندی اور انگریزی وغیرہ زبانوں سے لغت ہم بھی لیتے ہیں اور لیں گے، لیکن اصول تارید کے تحت یعنی اپنے ڈھنگ پر اردو تصرف کی صلاحیت کے ساتھ۔دیکھئے صندوق کو ہاتھ نہ لگایا یہی تو ہے تصرف۔ شمس ہم عرب سے اٹھا تو لائے لیکن تصرف کے افسوں نے اسے عورت سے مرد بنا دیا۔ ٹِکٹ کو ہم ٹکَٹ کہتے ہیں اور فیس کو کلمہ مفرد استعمال کرتے ہیں۔ کلمات کے اختراع، مشتق کرنے یا باہر سے لینے کی ضرورت اس عہد میں ہر کبھی سے زیادہ اور بہت زیادہ ہے اور یہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر علم اور فن اپنے ساتھ نئے لغات لاتا ہے۔ ہمیں نہ صرف اصطلاحات ہی وضع کرنی ہیں بلکہ معمولی ادبی زبان بھی اپنے لغات میں توسیع چاہتی ہے۔پہلے وضع اصطلاحات کو لوں گا۔ وہ کہیں سے لائی گئی ہوں۔ تمام ادبی شعبوں، فلسفہ، منطق، جغرافیہ اور ریاضی وغیرہ علموں کے متعدد شعبوں کی اصطلاحیں ہمارے ہاں موجود تھیں، جس وقت کہ مغرب کے نئے سائنس اور کلچر سے ہمارا سابقہ ہوا۔ یہ بھی ہوا کہ اہل فرنگ کے ساتھ ہم کو بھی اپنی اصطلاحوں میں ترمیم کرنی پڑی۔ انگریزی میں پہلے پولیٹیکل اکانومی ایک علم کا نام تھا۔ ہم اسے سیاست مدن کہتے ہیں۔ اب یورپ میں اس علم کی وضع قطع کے ساتھ اس کا نام بھی بدل گیا، اور ہم بھی اکونومکس کو معاشیات کہنے لگے حالانکہ پرانی اصطلاح ملا جلال الدین دوانی کی وضع کی ہوئی تھی۔کبھی ہم کو اپنی اندرونی ضرورت سے دقت پیش آئی، جب ولائتی مال جہازوں پر لد کر ہندوستان میں آنا شروع ہوا تو بل آف لیڈنگ ساتھ آنا ہی تھا۔ اس کو ضروری تصرف کے ساتھ بلٹی کہا گیا۔ جب ملک میں ریل جاری ہوئی تو ریلوے کے پارسل کی رسید کو نہ جانے کیوں بلٹی کہنے لگے۔ آج بھی ریل کے پارسل یا گودام کی رسید کو بلٹی کہتے ہیں۔ جنہوں نے اس رسید کو بلٹی کہا وہ اردو بولنے والے تھے۔ جنہوں نے بل آف لیڈنگ کو بلٹی کہا وہ گجراتی بولنے والے تھے۔ د ونوں قسموں کا مال لانے والے فرنگی تھے۔ بلٹی کا لفظ مال کی آمد و رفت کے سلسلے میں کانوں میں پڑا ہوا تھا، ادھر بھی سہل انگاری سے اس کا استعمال دوسرے معنی میں شروع ہو گیا۔ اب جو معاشیات کی اصطلاحیں نئے سرے سے وضع ہونے لگیں توبل آف لیڈنگ کے لئے کوئی لفظ نہ تھا کیونکہ تمام شمالی ہند میں بلٹی کا لفظ ریل کے پارسل کے متعلق مستعمل اور معروف ہو چکا تھا، آخر اس کی جگہ لداؤ پرچہ قرار دینا پڑا جو بل آف لیڈنگ کا اردو ترجمہ ہے۔برقیات کی ذیل میں الکٹری فائی کی جگہ بر قانا وضع کیا گیا جو ہر لحاظ سے قابل داد ہے۔ پونڈ کے روپے اور روپوں کے پونڈ بنائے جائیں تو مبادلہ کا فرق جو ہوتا ہے اسے بھڑوت کہا گیا یعنی ڈفرنس آف اکسچینج۔ لفظی ترجمہ کہیں بد عنوانی بھی پیدا کر دیتا ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ اصطلاح کی ضرورت پر پہلے اپنے ہاں جائزہ لیا جائے، یعنی دیکھا جائے کہ ملکی زبان کا کوئی ہم معنی لفظ پہلے سے کہیں موجود اور مستعمل ہے کہ نہیں۔ نہ ملے تو لفظی ترجمہ کیا جائے یا آکسیجن کی طرح اصل لفظ ہی کو رہنے دیا جائے۔ ایک جگہ رزرو فارسٹ کا ترجمہ کیا گیا محفوظ جنگلات، جو افسوسناک ہے، کیونکہ ٹینک یا آکسیجن کی طرح رزرو فارسٹ ہمارے لئے نئی چیز نہیں۔ یہ پہلے سے ہے اور نہ صرف عرف عام بلکہ دفتری اصطلاح میں بھی اسے رکھ سکتے ہیں۔اب تک جو کچھ کہا گیا اسم اور فعل پر حاوی ہے۔ ادبی زبان کا جہاں تک تعلق ہے، نہ تو نفسیاتی اعتبار سے ہمارے ہاں اسموں کی کمی ہے اور نہ صفاتی پہلو سے۔ حروف جاریہ و معنوی بھی کافی ہیں۔ فعل کا کوئی صیغہ ہمیں وضع کرنا نہیں ہے۔ ہمارا صرف کبیر ارادے اور وقوعے کے ہر پہلو اور زمانے کے ہر دقیقے کا صحیح ترجمان ہے۔ غرض کہ مفردات میں ہم کسی سے ہیٹے نہیں۔ ہاں اس میں ترقی کی گنجائش ہر وقت ہے۔ دقت اور اختلاف جو آ کر پڑتے ہیں تو اسموں کی تذکیر و تانیث اور نتیجتاً افعال کی تذکیر و تانیث میں۔اس بارے میں اگر ہم دو کلئے اور صرف چند ضمنی قاعدے قرار دے دیں تو تمام خرابیاں اور اختلاف رفع ہو سکتے ہیں۔ وہ کلئے یہ ہیں (1) جس غیر ذی روح شے کے نام میں جمالی شان پائی جائے، اسے مؤنث اور جس میں جلالی یعنی ہیبت ایذاد ہی اور رعب کی کیفیت پائی جائے اسے مذکر قرار دیں (2) جذبات، احساسات یا افراد موجودات کے ناموں کے متعلق یہ ہونا چاہئے کہ ان کے مترادف یا قریب المعنی جو لفظ پہلے سے ہندوستانی یا ہندی وغیرہ میں ہیں ان کی جنسیت کا اتباع لازم سمجھا جائے۔نوٹ عام رواج یا عورتوں کے استعمال کا بھی لحاظ رکھنا ہوگا اور یہ بھی ہے کہ جو لفظ ہمارے نظریہ کے خلاف پہلے سے بالاتفاق ایک جنس میں رکھ دیا گیا ہے اسے ہاتھ نہ لگایا جائے۔ شارٹ سکرٹ جس جامہ میں ہو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ بعض الفاظ محض اپنی بناوٹ اور صوت کی شان کے تحت جنسیت قبول کر لیتے ہیں۔ سنسکرت کے ا کثر الفاظ اس صوتی جبر کے معمول ہیں۔ جیسے پتی سنسکرت میں مالک یا صاحب کو کہتے ہیں۔ اس کا مؤنث ہے پتنی۔ مگر ہندوؤں میں لڑکیوں کے نام چندر پتی اور اندر پتی وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ یہ یوں کہ ان کا صوتیاتی بہنا پا سرسوتی، لکشمی اور پاربتی وغیرہ سے ہے۔ اسی طرح گنگا جمنا، مالا، چھالیا وغیرہ مذکر ہونے چاہئے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ متروکات کی لمبی فہرست بھی نظر ثانی کی محتاج ہے جس کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں۔انشا کے بارے میں بھی کچھ کہنا ہے اس لئے کلمات کا دفتر جو بے پایاں ہے، بند کر دینا پڑتا ہے۔ اس سے پہلے مرکبات اور مشتقات کی نسبت ایک مختصر گذارش کرنی ہے۔ میں نے چند لفظ گڑھے ہیں یا یہ کہیے کہ اخذ و تصرف سے ان کے ساتھ سلوک کیا ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں،دو آبہ گنجم یعنی وہ ملک جو گنگا اور جمنا کے درمیان واقع ہے۔ آپ جانتے ہیں یہ قطعہ نہایت اہم ہے، ہندی اورہند کی زبانوں کی تاریخ کے سلسلے میں اس کا نام بار بار آتا ہے لیکن اس کے لئے ایک لفظ اب تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ قم یعنی قبل مسیح اور بم یعنی بعد مسیح میں پولی ٹیشن کو سیاس اور نفسیات یعنی سائیکولوجی کے ماہرکو نفاس کہتا ہوں۔ کلام میں بے ضرورت، مغلق اور غریب الفاظ کی بھرمار کو قاموسیات اور شارٹ اسٹوری کو افسانچہ کہتا ہوں۔ اسی طرح نیم گرم ارادہ، گلابی اصول، احولی نقطہ نظر، عمر کا ڈھلواں حصہ، کایا بدل، استفساریہ، متوازیہ، ام الوطن، لسان یعنی لنگواسٹ، خورد بینی اقلیت وغیرہ کی ترکیبیں ہیں۔ تارید یعنی غیر زبان کے لفظ کو ضروری تصرف سے اردو بنا لینا اور مورد وہ لفظ جو اس طریق پر اردو بنایا گیا ہو پھر ایسی ترکیبیں ہیں جیسے ادبی ناداری، ادبی تمول، ادبی استبداد، ادبی سخت جان، ادھورا حافظہ اور ہر کبھی وغیرہ وغیرہ۔اب میں ایک بات کہہ کر اس شق سے رخصت ہوتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی زبان ضرورت صحیحہ کے بغیر دوسری زبانوں کے کلمات اور مرکبات مستعار لینے کی عادی ہو جاتی ہے، تو اس کی صرفی استعداد، اشتقاقی قوت اور اختراعی صلاحیت فنا ہو جاتی ہے اور وہ ادبی ناداری اور دریوزہ گری کی درگت کو پہنچ جاتی ہے۔کلام، علم معانی کی کتابوں میں آیا ہے، ’’الفصاحت یوصف بہا المفرد والکلام و المتکلم۔‘‘ یعنی فصاحت کا تعلق کلمہ، کلام اور متکلم سے ہے۔ یہاں ہمارا مطمح نظر صرف کلام ہے، یعنی انشا کے لئے جملہ۔ اس سے پہلے کہ جملے کی ساخت یا ترتیب کی نسبت کچھ کہا جائے، ضروری ہے کہ فصاحت کی جامع و مانع تعریف پیش کر دی جائے جسے غالباً آپ سائنٹفک حیثیت عطا فرمائیں گے اور وہ یہ ہے، ’’فصاحت کلام کا وہ وصف ہے جو سامع یا قاری کے ذہن کو منشی یا متکلم کے ذہن کے قریب ترین پہنچا دیتا ہے۔‘‘بولتے یا لکھتے وقت ہماری انتہائی کوشش اس امر میں ہونی چاہئے کہ پڑھنے یا سننے والے کو ہمارا مافی الضمیر سمجھ لینے میں دقت اور پریشانی نہ ہو۔ آج کل اس کا لحاظ کم رکھا جاتا ہے، جملوں میں اس قدر بے ربطی ہوتی ہے، اس طرح صلہ در صلہ وارد ہوتا ہے کہ ادھر تو اس کا مطلب سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے اور ادھر وہ جملہ اردو کا سا نہیں جچتا، اوپر اوپر معلوم ہوتا ہے۔ ہماری انشا میں یہ ایک بہت بڑی بدعت آ کے پڑ گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے،’’20 ماہ حال کو ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے جو بہ سر پرستی انجمن فلاں زیر صدارت جناب الف ہوا تھا، ادبی ضروریات کی نسبت جناب بے نے فرمایا کہ۔۔۔‘‘آپ دیکھتے ہیں اس جملے کی نوعیت خبریہ ہے۔ اور خبر میں سب سے اہم تقریر کرنے والے کا نام ہے اور پھر موضوع جس پر تقریر ہوئی۔ مقرر کا نام اور موضوع دریافت کرنے کے لئے سامع یا قاری کو دیر تک انتظار کرنا پڑا۔ اس عرصے میں اس کا ذہن جانے کہاں کہاں ٹکریں مارتا پھرا۔ کبھی قیاس کیا کہ تقریر کرنے والا زید ہوگا کیونکہ وہ آج کل لاہور میں وارد ہے اور کئی لکچر دے چکا ہے۔ کبھی اس کا ذہن حضرات ہری جن کی طرف منتقل ہوا کیونکہ ان دنوں یہ موضوع بہت زوروں پر ہے۔غرض کہ یہ خبریہ نہیں بلکہ سامع یا قاری کے صبر سعی، تجسس اور حسن ظن کا امتحان ہے۔ یہ بدعت اول اول انگریزی سے ترجمے کی بدولت اردو میں آفت کی طرح نازل ہوئی، اور اب اسلوب کی سر مشق بن بیٹھی ہے۔ لمبے لمبے پیچیدہ جملے، مغلق فقرے، صلہ موصول کی بھرمار، اضمار قبل الذکر، متعلقات کی بہتات اور بے ڈھنگاپن۔ یہ عیوب بالعموم آج کل کی انشا کو پا بہ گل کر رہے ہیں۔ جو بات کئی چھوٹے چھوٹے جملوں اور قریب الفہم فقروں میں کہی جاسکتی تھی، اسے ایک شیطان کی آنت جملے میں لا کر گڈمڈ کر دینا عہد حاضر کی انشا کا بڑا عیب ہے۔ اب دیکھئے وہی بات نہایت خوش اسلوبی سے یوں کہی جا سکتی ہے،’’جناب (ب) نے ایک جلسے میں ادبی ضروریات پر تقریر کی جو انجمن فلاں کی سر پرستی میں 20 ماہ حال کو جناب الف کی صدارت میں ہوا۔ لکچرار نے دوران تقریر میں کہا۔۔۔‘‘اب سامع یا قاری قیاس اور تلاش کی زحمت سے بچ جاتا ہے۔ ا س کا ذہن ادھر ادھر سراسیمہ نہیں پھرتا۔ ہر بات، واقعہ کا ہر جز، صحیح نفسیاتی ترتیب میں اپنے وقت پر واضح ہو جاتا ہے۔ مگر لوگوں کا رجحان الفاظ کے ساتھ جملوں کو بھی مغلق بنا دینے کی جانب ہے۔ اس اندھی تقلید سے اردو کو پاک رہنا چاہئے۔ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ انگریزی کا طرز انشا اردو کے اسلوب پر حاوی ہوکر اس کو بگاڑ رہا ہے۔ اس کا ملزم ہمارا اخباری لٹریچر ہے۔ افسانوں اور افسانچوں میں یہ بھی رواج ہو چلا ہے کہ قائل کے قول کو توڑ پھوڑ کر راوی کے توصیفی یاا ضافی الفاظ سے پیوند کیا جائے۔ مثلا ًایک کہانی یااس کی فصل اس طرح شروع ہوتی ہے،’’میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا۔ ‘‘ حامد نے تیوری چڑھا کر کہا۔’’تم تو کیا۔۔۔‘‘ محمود تیزی سے بولا، ’’تمہارا پیر ایسا کرے اور ضرور کرے۔‘‘زبان کا یہ خون کرنا شرمناک ہی نہیں افسوسناک ہے۔کوشش کی جاتی ہے کہ ہر شعر یا ہر جملہ ٹھوس اور ٹھکی ہوئی زبان اور اسلوب میں ہو یعنی پڑھتے یا سنتے ہی سمجھ میں نہ آ سکے۔ لاگ لپیٹ، کھینچ تان، گرہ در گرہ اور پیچ در پیچ طرز بیان فضیلت کا سکہ بٹھا رہے ہیں۔ یہ کچھ بھی نہیں۔ وہ زبان کو بگاڑ رہے ہیں اور بس۔ کسی موضوع کے لئے بھی مغلق بیانی کی ضرورت نہیں، موضوع جتنا زیادہ وقیع ہو اتنی ہی سہل نگاری اور صراحت چاہے گا۔ یہ کیا کہ اپنی دشوار پسندی سے اسے دشوار تر بنا دیا جائے۔بعضوں کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ عربی فارسی الفاظ اور ترکیبیں لانے سے کلام کی دل پذیری اور زور بڑھ جاتا ہے مگر وہ سخت مغالطہ اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ادب کی تاریخ بتاتی ہے کہ لغت بازی یا مغلق بیان سے کلام کبھی سر سبز نہیں ہوا۔ ہر زبان کے اعلیٰ اور الطف ادب میں وہ کلام چوٹی کا سمجھا جاتا ہے جس میں دقت اور اغلاق لفظی یا معنوی نام کونہ ہو۔ بعض اساتذہ کے اشعار اس ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں جو یہی نہیں کہ ستر یا بہتر نشتروں میں تیز تر ہیں بلکہ انہیں حاصل دیوان کہنا شاید درست ہو،تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو رونا ہے یہ کچھ ہنسی نہیں ہےمیر صاحب کے اس شعر میں فاری عربی کا ایک لفظ بھی نہیں۔ یہی حال ذوق کے اس شعر کا ہے،اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گےناسخ کا یہ شعر بھی اسی قبیل سے ہے،وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤںمومن فرماتے ہیں،تم مرے پاس ہوتے ہو گیا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتامرزا غالب کا یہ شعر ہے،ان کے دیکھے سے جو آتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہےفارسی عربی کے تین لفظ جو اس شعر میں آئے، ایسے ہیں جنہیں ان پڑھ اور گنوار بھی بولتا ہے۔ وہ لوگ جو لفظوں کے طلسم سے اپنی شاعری یا تصنیف کا گھروندا بناکر خوش ہوتے ہیں انہیں جلد ہی مایوس ہونا پڑے گا۔ جاننا چاہئے کہ غیر زبانوں کے جو لفظ اردو میں گھل مل گئے ہیں یا اس میں رچنے بچنے کی اہلیت رکھتے ہیں، ان سے اردو کے تمول اور تزئین میں ایزادی ہوتی ہے، لیکن محض لغات بازی یا قاموسیات سے اول تو زبان کا ستیاناس ہوتا ہے، دوسرے متکلم مقبولیت حاصل کرنا تو رہا ایک طرف، اپنے عندیہ کو سامع کے ذہن کے قریب پہنچنے میں مانع ہوتا ہے۔اس میں کلام نہیں کہ علمی زبان تغزل کی یا عام ادبی زبان سے کچھ نہ کچھ مختلف ہوا کرتی ہے اور ایسا ہونا لازمی ہے۔ فرانسیسی لسان برگسیں نے کیا خوب کہا کہ علمی زبان بمنزلہ ایک پپڑی کے ہے جو پانی کی سطح پرجم گئی ہو۔ اس کی نوعیت پانی کی نوعیت سے جداگانہ نہیں۔ وہ بھی انہیں اجزا سے بنی جن سے پانی بنا۔ ہاں خاص اسباب نے اس کی ظاہری شکل کو پانی کی شکل سے ممیز کر دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جو دو جمع دو مساوی چار۔ یہ تو ہوئی ریاضی کی علمی زبان اور دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ یہ ہوئی معمولی ادبی زبان۔ یہ کون نہیں مانے گا کہ ما بعد الطبعیات یا جر اثقال پر آب حیات یا فسانہ آزاد کی زبان و اسلوب میں نہیں لکھ سکتے لیکن اس کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے کہ ان دونوں میں وہی نسبت قائم رہے جو پانی اور پانی کی پپڑی میں ہے۔وقت کی قلت روکتی ہے ورنہ اب سے ساٹھ ستر برس پہلے کی علمی زبان کے نمونے پیش کئے جاتے جب کہ مغربی علوم سے ہم کو پہلے پہل روشناسی ہوئی تھی۔ محاوروں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ صنائع بدائع ضرورت سے زیادہ ہیں، بلکہ تحسین کلام کی حد سے گزر کر کلام پر چھائے ہوئے ہیں۔ نظم میں اصناف مقررہ کی قید اور تعین اب باقی نہیں۔ یہ خوب ہوا۔ عروض میں کانٹ چھانٹ کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ بحور و اوزان اور قافیہ کے قواعد جو عربی زبان کے لئے مدون کئے گئے تھے، مارشل لا کی طرح ہم پر عائد کئے گئے۔ ان کا نباہ نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ یہی نہیں بلکہ ان سے بغاوت اس جوش و خروش کی ہوئی کہ اب بے راہ روی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ اردو کو ضرورت ہے علمی لغات میں ایزادی اور وضع اصطلاحات میں آزادی اور تصرف کی۔زبان کی صرفی تاریخ یعنی اشتقاق و لغت آفرینی کے طریق کو ہم بھول بیٹھے ہیں۔ اس بارے میں حافظہ کو تازہ کرنا ہے۔ قدما جو قواعد فصاحت کے باندھ گئے، مثلا تنافر حروف، غرابت اور مخالفت قیاس لغوی وغیرہ، ان میں بھی ترمیم اور نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ فصاحت کا اصلی عنصر جو اسالیب بیان سے اردو میں اڑتا جاتا ہے، اسے روکنا چاہئے۔ یہ سب کچھ ہو لیکن اردو کی ذاتی لطافت مفقود نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارا فرض ہے کہ حریت لسان و حریت فکر کے وکیل ہوں، کیونکہ تخیل نطق کے سہارے چلتا ہے۔ الفاظ کے بغیر تخیل نا ممکن ہے۔ اس لئے حریت لسان حریت فکر کی مؤید ہے۔اب یہ کہنا ہے کہ اردو کا نستعلیق ٹائپ نہ ہونا اسے دیسی زبانوں میں ہیٹا بنا رہا ہے۔ امید ہے کہ اس پر گفت و شنید کا بھی موقع دیا جائے گا اور اس بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کے بعد ایک لائحہ عمل قرار پائے گا۔ اسی ضمن میں املا کے مسائل بھی بحث میں آ جائیں گے۔ اردو کی پبلشنگ کمپنیوں کا نہ ہونا اس کی نشر و اشاعت میں مخل ہے۔ ہماری ضروریات میں ایک ضرورت اور بھی ہے جو کسی سے کم نہیں۔ وہ ہے ارباب اردو کے اجتماعی مسائل کی یعنی مل کر کام کرنے کی صلاحیت، جس کی زندہ نظیر امید ہے، یہ آپ کی اردو سبھا ثابت ہوگی۔آخر میں نہایت خلوص سے یہ گذارش ہے کہ اردو ہماری کفالت میں ہے۔ یہی نہیں کہ ہم اچھی نظمیں کہہ کر یا دو چار کتابیں لکھ کر خلقت کی واہ واہ لیں اور بس۔ ہمارا مطمح نظر وسیع ہونا چاہئے۔ قدرت نے ہم پر کچھ فرائض بھی ڈالے ہیں۔ لازم ہے کہ ہم موجودہ حالات کا صحیح مشاہدہ کریں۔ مستقبل میں جو ضرورتیں آنے والی نسلوں کی عارض حال ہوں گی ان کا ٹھیک موازنہ کریں اور اردو کو ایسا بنا کر اس کی ترقی کے ایسے رستے نکال کر چھوڑ جائیں کہ جو ہمارے بعد ہماری جگہ آئیں گے، ان کے لئے کوئی قابل دفع اور ناگوار عوارض مانع ارتقا نہ رہ جائیں، کار دنیا کوئی تمام کر سکا یا نہیں، اس کو رہنے دیجئے، کوشش تکمیل کی کرتے جایئے اور ذات باری کے اس ارشاد کو یاد رکھئے، ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.