Jump to content

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

From Wikisource
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
by خواجہ میر درد
293797ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکےخواجہ میر درد

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے

میں وہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقش قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے

یارب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے

گو بحث کر کے بات بٹھائی بھی کیا حصول
دل سے اٹھا غلاف اگر تو اٹھا سکے

اطفائے نار عشق نہ ہو آب اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے

مست شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے دردؔ چاہے لائے بہ خود پر نہ لا سکے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.