Jump to content

ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے

From Wikisource
ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316202ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سےغلام علی ہمدانی مصحفی

ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے
بہتر ہے مجھ کو مرنا اے یار زندگی سے

مر جاؤں میں تو رونا میرا تمام ہووے
شاکی ہیں میری چشم خوں بار زندگی سے

اس شاہد نہاں کا کشتہ ہوں میں کہ جس نے
کھینچی ہے درمیاں میں دیوار زندگی سے

مرتے تو چھوٹ جاتے رنج و محن سے یاں کے
مانند خضر ہم ہیں ناچار زندگی سے

یاں کی اذیتوں سے ازبسکہ آگہی تھی
کرتے تھے ہم عدم میں انکار زندگی سے

جیتے اگر نہ ہم تو کیوں ذلتیں اٹھاتے
کھائی ہے دل پہ ہم نے تلوار زندگی سے

سچ ہے اٹھائے کب تک ہر اک کی بے ادائی
آتی ہے مصحفیؔ کو اب عار زندگی سے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.