اسیری میں تباہی رونق کاشانہ ہو جائے
Appearance
اسیری میں تباہی رونق کاشانہ ہو جائے
قفس ہی نالوں سے جل کر چراغ خانہ ہو جائے
تغافل سازگار شوق اہل درد کیا ہوگا
ادا سے دو فریب ایسا کہ دل دیوانہ ہو جائے
نہ کہنا غیر سے قاصد کہ میں مطلب نہیں سمجھا
پیام یار ہے ہے معنئ بیگانہ ہو جائے
نہیں کیوں حضرت موسیٰ کی بیتابی کے ہم پیرو
کہ راز دل زباں پر آئے اور افسانہ ہو جائے
کہاں تک ضبط بے تابی دل مسکین مجھے ڈر ہے
تری خوئے تحمل سے وہ بے پروا نہ ہو جائے
فغاں کرتے ہوئے جا پہنچو اس کی بزم عشرت میں
کبھی تو اے ذکیؔ یہ شوخئ رندانہ ہو جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |