اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں
اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں
کوئی جانے کہ وفا کرتے ہیں
یوں وفا عہد وفا کرتے ہیں
آپ کیا کہتے ہیں کیا کرتے ہیں
ہم کو چھیڑوگے تو پچھتاؤگے
ہنسنے والوں سے ہنسا کرتے ہیں
نامہ بر تجھ کو سلیقہ ہی نہیں
کام باتوں میں بنا کرتے ہیں
چلئے عاشق کا جنازہ اٹھا
آپ بیٹھے ہوئے کیا کرتے ہیں
یہ بتاتا نہیں کوئی مجھ کو
دل جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
حسن کا حق نہیں رہتا باقی
ہر ادا میں وہ ادا کرتے ہیں
تیر آخر بدل کافر ہے
ہم اخیر آج دعا کرتے ہیں
روتے ہیں غیر کا رونا پہروں
یہ ہنسی مجھ سے ہنسا کرتے ہیں
اس لیے دل کو لگا رکھا ہے
اس میں محبوب رہا کرتے ہیں
تم ملوگے نہ وہاں بھی ہم سے
حشر سے پہلے گلہ کرتے ہیں
جھانک کر روزن در سے مجھ کو
کیا وہ شوخی سے حیا کرتے ہیں
اس نے احسان جتا کر یہ کہا
آپ کس منہ سے گلہ کرتے ہیں
روز لیتے ہیں نیا دل دلبر
نہیں معلوم یہ کیا کرتے ہیں
داغؔ تو دیکھ تو کیا ہوتا ہے
جبر پر صبر کیا کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |