اس بت کو دل دکھا کے کلیجہ دکھا دیا
Appearance
اس بت کو دل دکھا کے کلیجہ دکھا دیا
اسباب اپنی ذات کا سارا دکھا دیا
ہم نے تمہاری بات پہ دکھلا کے آئنہ
معشوق خوبرو تمہیں تم سا دکھا دیا
مشتاق دل ہوا جو وہ مے نوش بزم میں
میں نے اٹھا کے ہاتھ میں شیشہ دکھا دیا
ہم نے بھی ان کو ان کی طرح چھیڑ چھاڑ میں
رونا دکھا دیا کبھی ہنسنا دکھا دیا
او بحر حسن گریۂ بے حد کے لطف سے
سو بار مجھ کو اشک کا دریا دکھا دیا
ہم نے شگفتہؔ اس بت کافر کو پیار میں
اپنا سمجھ کے مال پرایا دکھا دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |