اس توقع پہ کہ دیکھوں کبھی آتے جاتے
Appearance
اس توقع پہ کہ دیکھوں کبھی آتے جاتے
گھس گئے پاؤں رہ دوست میں جاتے جاتے
فکر دوزخ میں ہمیں رفع معاصی کی پڑی
آگ پر دامن تر کو ہیں سکھاتے جاتے
غیر کا زور چلے ان پہ اور ان کا مجھ پر
کہتے ہیں منہ سے ہو کیوں رال اڑاتے جاتے
غیر کو لے کے گرانی کی نہ ٹھہری ہوتی
اپنے دروازے سے مجھ کو نہ اٹھاتے جاتے
کیوں نشاں چھوڑ گئے تیز روان رہ عشق
کعبہ و بت کدہ کو چاہئے ڈھاتے جاتے
آگ سے سبزہ کبھی اور کبھی نخل سے آگ
ہیں ہر اک رنگ میں نیرنگ دکھاتے جاتے
سبزہ بن جائیں گے آخر کو چمن کے سب سرو
شرم سے تیری زمیں میں ہیں سماتے جاتے
مجھ سے بگڑے ہوئے ان کو ہوئی مدت ناظمؔ
بیچ والے ہیں ابھی بات بناتے جاتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |