اس در پہ مجھے یار مچلنے نہیں دیتے
Appearance
اس در پہ مجھے یار مچلنے نہیں دیتے
ارمان مرے جی کے نکلنے نہیں دیتے
دم دم میں خبر پہنچے ہے جو آنے کی اپنی
ہے جان لبوں پر وہ نکلنے نہیں دیتے
آشوب قیامت سے زبس خوف ہے سب کو
دو چار قدم بھی انہیں چلنے نہیں دیتے
جاتا ہے صفائے رخ دل دار پہ جب دل
مقدور تک اپنے تو پھسلنے نہیں دیتے
عادت میں کرو فرق نہ تم اپنی نگہ سے
کیوں زہر اسے آج اگلنے نہیں دیتے
وہ پردہ نشینی کی رعایت ہے تمہاری
ہم بات بھی خلوت سے نکلنے نہیں دیتے
یہ دست بسر رہنے کا عارفؔ وہ محل ہے
اس جا کف افسوس بھی ملنے نہیں دیتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |