اس رشک مہ کی یاد دلاتی ہے چاندنی
Appearance
اس رشک مہ کی یاد دلاتی ہے چاندنی
ہر رات مجھ کو آ کے ستاتی ہے چاندنی
آب رواں میں حسن ملاتی ہے چاندنی
ہر موج میں گھٹی نظر آتی ہے چاندنی
جا بیٹھتے ہیں ہم لب دریا پہ جب کبھو
کیا جھمکے اپنے ہم کو دکھاتی ہے چاندنی
سامان بزم بادہ میں کرتا ہوں جس گھڑی
آ چاندنی کا فرش بچھاتی ہے چاندنی
صحرا میں جا کے دیکھ کہ ہر رود خشک کو
ہم رنگ جوئے شیر بناتی ہے چاندنی
جب دیکھتی ہے دودھ سا پنڈا ترا میاں
خجلت سے آب ہی ہوئی جاتی ہے چاندنی
پیارے اندھیری راتیں ہیں ایسے میں مل لے تو
پھر ورنہ چاند چڑھتے ہی آتی ہے چاندنی
گر وہ بھی قدرداں ہو تو بے جذبۂ طلب
روٹھے ہوئے صنم کو ملاتی ہے چاندنی
کیونکر نہ میں جلوں شب ہجراں میں مصحفیؔ
بن یار میرے جی کو جلاتی ہے چاندنی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |