اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی
Appearance
اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی
بات بگڑی ہوئی نہیں بنتی
وہ بنی ابتدائے الفت میں
دم پہ جو وقت واپسیں بنتی
آدمی سب فرشتے بن جاتے
آسماں پر اگر زمیں بنتی
میری صورت بنی تو خاک بنی
قسمت اے صورت آفریں بنتی
وعدہ کرتے ہی کیا وہ آ جاتے
رات بھر زلف عنبریں بنتی
کاش سنتا نہ کوئی شور و فغاں
دل کی جا چشم سرمگیں بنتی
تو نے ایسے بگاڑ ڈالے ہیں
ایک کی ایک سے نہیں بنتی
نہ چمکتی جو حسن کی تقدیر
کیوں تری چاند سی جبیں بنتی
پارۂ جیب سے مرے اے کاش
دست وحشت کی آستیں بنتی
بزم دنیا تھی قابل جنت
خوب بنتی اگر یہیں بنتی
طبع نازک کا لطف جب تھا داغؔ
نازنینوں میں نازنیں بنتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |