اس قدر آپ کا عتاب رہے
Appearance
اس قدر آپ کا عتاب رہے
دل کو میرے نہ اضطراب رہے
نہ پٹی ان سے پیار کی میزان
ہاں مگر رنج بے حساب رہے
یوں شب وصل کا ہے عالم یاد
جیسے برسوں کی یاد خواب رہے
حال دل سن کے بول اٹھا قاصد
یاد کس کو یہ سب کتاب رہے
منتظر ہوں کسی کے آنے کا
کس کی آنکھوں میں آ کے خواب رہے
صبح کے اس حجاب نے مارا
رات بھر ایسے بے حجاب رہے
غیر کا منہ اور آپ سے باتیں
ایسی باتوں سے اجتناب رہے
ہم بھی مر کر عذاب سے چھوٹے
آپ بھی داخل ثواب رہے
ہائے وہ دن خدا نہ لائے یاد
ہم سے روٹھے جو کچھ جناب رہے
بحر ہستی سے کوچ ہے درپیش
یاد منصوبۂ حباب رہے
ایک دم کا یہاں توقف ہے
خیمہ بے چوب بے طناب رہے
کچھ نہ بن آئی اس کے آگے نظامؔ
دو ہی باتوں میں لا جواب رہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |