اس قدر بڑھ گئی وحشت ترے دیوانے کی
اس قدر بڑھ گئی وحشت ترے دیوانے کی
توڑ کے پھینک دیں سب کھڈیاں پاخانے کی
کوستا ایسے ہے مردود ہمیشہ مجھ کو
کبھی مانگی نہ دعا غیر کے مر جانے کی
کھنچ رہا ہے وہ شب وصل کا نقشۂ دل میں
یاد ہے ہم کو ادائیں تیرے شرمانے کی
جب سے اس شوخ کی زلفوں کا لیا ہے بوسہ
بڑھ گئی اور بھی وحشت دل دیوانے کی
شیخ صاحب نے تو پوچھا تھا پتہ مسجد کا
راہ رندوں نے بتا دی اسے میخانے کی
آ گئی اب تو جوانی ہوا بچپن رخصت
کیا ضرورت ہے شب وصل میں گھبرانے کی
خلوت یار میں رہنے کو جگہ مل جائے
نہ تو کعبہ کی ضرورت ہے نہ بت خانے کی
دال روٹی کا بڑا فکر تھا یہ بھی چھوٹا
ہو گئی جب کہ یہ عادت ہمیں غم کھانے کی
کمسنی میں نہ اگر غیر سے جا کر ملتے
ہم کبھی دیکھتے صورت نہ شفا خانے کی
جھوٹی سچی کی نہیں فکر خوشی تو یہ ہے
ان کو عادت ہے مرے سر کی قسم کھانے کی
دل میں آتا ہے کہ دشمن کے لگاؤں جوتے
لے گیا سالا سلیپر مری دس آنے کی
منہ کیا رات کو کالا جو زبردستی سے
کیا ضرورت تھی تمہیں غیر کے گھر جانے کی
اپنے مرنے کی خبر یار نے جھوٹی بھیجی
خوب تدبیر نکالی مرے مر جانے کی
جب یہ دیکھا کہ نہاتے ہیں وہ ننگے ہو کر
کھڑکیاں توڑ دیں سب میں نے غسل خانے کی
دونوں ٹھنڈک میں پڑے رہتے ہیں باہم لیٹے
یاد بھی ہے وہ تمہیں بات برف خانے کی
جب سے آنکھوں پہ پڑا عکس ترے جلوے کا
ہوئی اس روز سے عادت مجھے چندھیانے کی
ایک دن وہ تھا کہ وہ اڑ کے چلا کرتے تھے
ایک دن یہ ہے کہ عادت ہوئی کترانے کی
اس کے در کا نہ میاں بومؔ نے پیچھا چھوڑا
اینٹ سے اینٹ بجا کر رہے تہہ خانے کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |