اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے
Appearance
اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے
موت کیا نیند بھی اب آئے گی مشکل سے مجھے
دی حیات ابدی اس نے گلے سے مل کر
مل گئی داد وفا خنجر قاتل سے مجھے
دے چکے غیر کو دل ان سے کچھ امید نہیں
اپنے پہلو میں جگہ دیں گے وہ کس دل سے مجھے
دل بیتاب سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں
یہ نکلوا کے رہے گا تری محفل سے مجھے
لے گئے آج یہ کہہ کر وہ مرے پہلو سے
ہے محبت بہت ارمان بھرے دل سے مجھے
شکوے کرتا ہوں تغافل کے تو کہتا ہے کوئی
بات ہی کیا ہے بھلا دیجئے اب دل سے مجھے
اس طرح فکر سخن نے مجھے کھویا صفدرؔ
موت بھی ڈھونڈھے تو اب پائے گی مشکل سے مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |