اس قدر غرق لہو میں یہ دل زار نہ تھا
Appearance
اس قدر غرق لہو میں یہ دل زار نہ تھا
جب حنا سے ترے پاؤں کو سروکار نہ تھا
حسن کا جذب زلیخا ستی کچھ چل نہ سکا
ورنہ یہ پاک گہر قابل بازار نہ تھا
دل میں زاہد کے جو جنت کی ہوا کی ہے ہوس
کوچۂ یار میں کیا سایۂ دیوار نہ تھا
دل مرا عشق کے دھڑکوں سے موا جاتا ہے
یہ وہ دل ہے کہ کوئی ایسا جگر دار نہ تھا
آپ سے کیوں نہ ہوا کہہ کے یقیںؔ کو مارا
راست پوچھو تو کوئی مجھ سا گنہ گار نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |