اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
Appearance
اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں
اس بات پر بھلا ہم کیوں کر نہ زہر کھاویں
ہم سے وہی رکاوٹ غیروں سے یاریاں ہیں
ٹک صفحۂ زمیں کے خاکے پہ غور کر تو
صانع نے اس پہ کیا کیا شکلیں اتاریاں ہیں
دل کی تپش کا اپنی عالم ہی کچھ جدا ہے
سیماب و برق میں کب یہ بے قراریاں ہیں
ان محملوں پہ آوے مجنوں کو کیوں نہ حسرت
جن محملوں کے اندر دو دو سواریاں ہیں
جاگا ہے رات پیارے تو کس کے گھر جو تیری
پلکیں ندیدیاں ہیں آنکھیں خماریاں ہیں
نومید ہیں بظاہر گو وصل سے ہم اس کے
دل میں تو سو طرح کی امیدواریاں ہیں
کیا پوچھتا ہے ہم دم احوال مصحفیؔ کا
راتیں اندھیریاں اور اختر شماریاں ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |