اس کا مزاج پوچھو جو ہر وقت پاس ہے
Appearance
اس کا مزاج پوچھو جو ہر وقت پاس ہے
اس کی بلا سے دل جو ہمارا اداس ہے
پوشاک سے بدن کی تجلی ہے آشکار
فانوس شمع طور تمہارا لباس ہے
دل توڑ کر وہ نشہ میں کہتے ہیں ناز سے
کس کام کا رہا ہے یہ ٹوٹا گلاس ہے
فرمائیے مزاج مبارک ہے کس طرح
کچھ خیر تو ہے کس لیے چہرہ اداس ہے
مدت کے بعد آج تو تنہا ملے حضور
اس پر بھی پوچھتے ہیں کہ کیا التماس ہے
تلوار کی ہے قدر شناسی کے دم کے ساتھ
جوہرؔ کو جانتا ہے جو جوہر شناس ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |