اس کو مجھ سے رُٹھا دیا کس نے
Appearance
اس کو مجھ سے رُٹھا دیا کس نے
میرے دل کو دکھا دیا کس نے
دام کاکل دکھا دیا کس نے
مرغ دل کو پھنسا دیا کس نے
خم ابرو دکھا دیا کس نے
کعبۂ دل گرا دیا کس نے
اے فلک ہم تو بیٹھے ہنستے تھے
اٹھتے اٹھتے رلا دیا کس نے
آئنے میں دکھا کے تیری شکل
تجھ کو حیراں بنا دیا کس نے
اک قلم حرف دوستی بھولا
ہائے اس کو پڑھا دیا کس نے
میں گیا اس کے گھر تو کہنے لگا
گھر ہمارا بتا دیا کس نے
نہیں معلوم شوق قتل میں کچھ
سر ہمارا اڑا دیا کس نے
نہ سمائے کسی کی آنکھوں میں
نظروں سے یوں گرا دیا کس نے
مانگتے ہی گناہ گار ہوئے
اس سے بوسہ لیا دیا کس نے
کل تلک دوست تھا وہ گویاؔ کا
آج دشمن بنا دیا کس نے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |