اس کی قدرت کی دید کرتا ہوں
Appearance
اس کی قدرت کی دید کرتا ہوں
روز نو روز عید کرتا ہوں
میرا احوال فقر مت پوچھو
زہد مثل فرید کرتا ہوں
روز بازار ملک ہستی میں
جنس عصیاں خرید کرتا ہوں
فتح کرنے کو قلب دل کا حصار
تیغ ہمت کلید کرتا ہوں
بسکہ میں تشنۂ شہادت ہوں
دل کو ہر دم شہید کرتا ہوں
نہ میں سنی نہ شیعہ نے کافر
صوفی ہوں سب کا وید کرتا ہوں
شیخ تو گو کہ پیر زادہ ہے
رہ تجھے میں مرید کرتا ہوں
اپنے احسان خلق سے حاتمؔ
آدمی کو عبید کرتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |