اس کے در تک کسے رسائی ہے
Appearance
اس کے در تک کسے رسائی ہے
وہ ہی جائے گا جس کی آئی ہے
بات اک دل میں میرے آئی ہے
گر کہوں تو ابھی لڑائی ہے
دوسری جان ہے تری الفت
ایک کھوئی ہے ایک پائی ہے
بھر دیا زخم میں نمک اس نے
یہ دعا گو کی منہ بھرائی ہے
سچ ہے بے عیب ہے خدا کی ذات
تجھ میں کیا جانے کیا برائی ہے
اے لب یار تجھ کو میری قسم
کبھی سچی قسم بھی کھائی ہے
اس کے در تک پہنچ گیا قاصد
آگے تقدیر کی رسائی ہے
قتل کرتی ہے گفتگو ان کی
بات میں بات کی صفائی ہے
داغؔ اب وصل کا وصال ہوا
یار زندہ غم جدائی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |