اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں
Appearance
اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں
تا نظر کام کرے رو بقفا جاتے ہیں
متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتش دل
ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں
وقت خوش ان کا جو ہم بزم ہیں تیرے ہم تو
در و دیوار کو احوال سنا جاتے ہیں
جائے گی طاقت پا آہ تو کریے گا کیا
اب تو ہم حال کبھو تم کو دکھا جاتے ہیں
ایک بیمار جدائی ہوں میں آپھی تس پر
پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں
غیر کی تیغ زباں سے تری مجلس میں تو ہم
آ کے روز ایک نیا زخم اٹھا جاتے ہیں
عرض وحشت نہ دیا کر تو بگولے اتنی
اپنی وادی پہ کبھو یار بھی آ جاتے ہیں
میرؔ صاحب بھی ترے کوچے میں شب آتے ہیں لیک
جیسے دریوزہ گری کرنے گدا جاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |