Jump to content

اس کے کوچے سے صبا گر ادھر آ جاتی ہے

From Wikisource
اس کے کوچے سے صبا گر ادھر آ جاتی ہے
by میر حسن دہلوی
316590اس کے کوچے سے صبا گر ادھر آ جاتی ہےمیر حسن دہلوی

اس کے کوچے سے صبا گر ادھر آ جاتی ہے
دل کے نالوں کی مفصل خبر آ جاتی ہے

گرچہ اس زلف سے کچھ کام نہیں اب تو ولے
سانپ کے کاٹے کی سی اک لہر آ جاتی ہے

میرے ہوتے ہی تمہیں غیر سے تھی کرنی بات
دل میں کچھ کچھ پھر اسی بات پر آ جاتی ہے

یہ غضب ہے کہ وہ روٹھا ہوا پھرتا ہے جو یاں
خواب میں بھی وہی صورت نظر آ جاتی ہے

ذکر چھیڑے کوئی اب کیونکہ مرا اس کے حضور
واں تو ہر بات میں تیغ و سپر آ جاتی ہے

سوجھتا کچھ نہیں اس وقت میاں اپنے تئیں
یاد جس وقت تری مو کمر آ جاتی ہے

کاٹ دیتا ہے وہ ہر بات میں سنتا ہی نہیں
بات میری کبھی مجلس میں گر آ جاتی ہے

اک وفاداری جو ہے آب و گل اپنے میں حسنؔ
پھر طبیعت نہیں پھرتی جدھر آ جاتی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.