اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ
Appearance
اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ
وحشت یہی کہتی ہے کہ زنجیر تڑا بھاگ
گرتے تھے خریدار کب اس طرح سے اس پر
پاؤں سے ترے لگتے ہی مہندی کو لگا بھاگ
شوخی کہوں کیا تیرے تصور کی کہ ہے ہے
شب سامنے آ کر مرے آگے سے گیا بھاگ
جب کبک دری دیکھے ہے رفتار کو اس کی
کہتا ہے یہی جی میں "یہ رفتار اڑا بھاگ"
زاہد جو ہوا کر کے وضو حوض پہ قائم
اک رند کو سوجھی کہ تو اب اس کو گرا بھاگ
ٹھہرا جو ذرا بحر محبت پہ میں جا کر
آئی لب ساحل سے یہی اس کے صدا بھاگ
اے مصحفیؔ ہے مار فلک رہزن مردم
تو بھاگ سکے اس سے تو از بہر خدا بھاگ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |