اس گل باغ امامت کے ہیں پھول
اس گل باغ امامت کے ہیں پھول
آبیاری جن کی کرتی تھی بتول
سو تن نازک پہ اس کے خاک دھول
دیدنی ہے رنگ صحبت یا رسولؐ
نوگل اس گلزار کے مرجھا گئے
پودھے پامالی میں سارے آگئے
جور کے آرے شجر سب کھا گئے
جاے گلبن سبز و خرم ہیں ببول
شامیوں کے ظلم سے ہوکر ہلاک
ان نے جانی نہ کسو کی مشت خاک
دھوپ میں جلتا رہا وہ جسم پاک
سایہ پرور کو گئے تم اپنے بھول
اب نہیں ہے برگ و بار و بر کا نام
خار غنچے ہو رہے ہیں گام گام
سیر کر ٹک جور کے تیشوں کا کام
کچھ نہ چھوڑا کیا فروع و کیا اصول
پھر گئی کیا آہ یک باری ہوا
اڑ گئے سب طائران خوش نوا
کیا زمانے نے ستم رکھا روا
جاے بلبل زاغ بیٹھے پھول پھول
ظالماں پژمردہ گل سب کر گئے
خار و خس سے گلستاں اب بھر گئے
آدمی کی جنس یعنی مرگئے
باغ جنگل ہو گیا پھرتے ہیں غول
الغرض میداں میں شہ مارا گیا
دار و دستہ قتل ہو سارا گیا
عابدیں کا یاور و یارا گیا
کرتے ہیں کیا کیا فضولی اب فضول
دیکھ ناچار ان نے کی کیا کیا گئی
یار و یاور موت سب کو آگئی
بیٹے اور بھائی سبھوں کو کھا گئی
کس قدر تیغ ستم بھی تھی اکول
جس کا نانا رحمت للعالمیں
باپ جس کا وہ امیرالمومنیں
خود امام برحق دین مبیں
تس کو ماریں یہ ظلوم و یہ جہول
پھر وہ مارا جائے یوں بیکس غریب
نے کوئی جس کا رہے یار و حبیب
کیونکے ہووے مشت خاک اس کو نصیب
فاتحہ دے کون آکر کیسے پھول
داد چاہیں کیا شہ مقبول کی
لاش لے جاویں کہاں مقتول کی
اصل ہے معلوم اس مجہول کی
ہے جو حاکم رد خلق و ناقبول
نوزدہ سالہ پسر اک رشک ماہ
لوٹتا تھا خاک و خوں میں پیش شاہ
ہو جہاں کیونکر نہ آنکھوں میں سیاہ
اس جگرپارے کے تیں برچھی کی ہول
اک پسر شش ماہہ لاگا جس کے تیر
خوں ہوا جس سے دل برنا و پیر
ہوگا جس کا پارۂ دل وہ صغیر
اس کے دل میں کیسی اٹھتی ہوگی سول
لوٹ کرتے ہیں تو کچھ تقصیر پر
غیر یوں آتے تھے خرد و پیر پر
جیسے جاتے ہیں کھٹن جاگیر پر
گھر نبیؐ کا ان کی گویا تھی تیول
زور دکھلانے کا کچھ حاصل نہ تھا
قافیہ یہ مرثیہ قابل نہ تھا
غم سے پھر مجھ کو دماغ و دل نہ تھا
ورنہ دیتا بات کو میں اور طول
تھا غرض شاداب کیا یہ گلستاں
پھول گل تھے رنگ رنگ اس میں عیاں
آگئی یک بار اس پر یوں خزاں
کل جو تھے غنچے ہوئے ہو کر ملول
یہ چمن جو سبز با خرم رہا
خوبی و رونق ہی کا ہمدم رہا
ہر گل و بوٹے پر اک عالم رہا
حظ روحی اس سے ہوتا تھا حصول
ہوگیا ہے سو وہ اب ماتم کا گھر
جھڑ پڑے اس کے گل تر خاک پر
دیکھیے اودھر تو خوں ہووے نظر
درد و غم بن کچھ نہیں ہوتا وصول
درد دل اے میرؔ کب تک بس خموش
ہوگیا احباب کو تو درد گوش
کشتہ ہیں اس واقعے کے اہل ہوش
مردہ ہیں اس سانحے کے ذی عقول
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |