اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا
Appearance
اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا
یہ طفل ہے ابتر نہ رہا ہے نہ رہے گا
منعم نہ ہو مغرور سدا پاس کسو کے
سیم و زر و گوہر نہ رہا ہے نہ رہے گا
گر عیش میسر ہو تو کر لیجے کم و بیش
سب وقت برابر نہ رہا ہے نہ رہے گا
آنکھوں سے اسی طرح اگر سیل رواں ہے
دنیا میں کوئی گھر نہ رہا ہے نہ رہے گا
جب دختر رز لے کے حضورؔ آ گیا ساقی
پھر زہد برادر نہ رہا ہے نہ رہے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |