الفت میں عیاں سوز بتاں ہو نہیں سکتا
الفت میں عیاں سوز بتاں ہو نہیں سکتا
یہ آگ ہے ایسی کہ دھواں ہو نہیں سکتا
کیا پارۂ دل کوئی زباں ہو نہیں سکتا
کیا اڑ کے لہو رنگ فغاں ہو نہیں سکتا
او جلوہ گہ طور کے کھل کھیلنے والے
کیا دل کوئی خلوت کا مکاں ہو نہیں سکتا
مجھ کو ہے لب جام شکستہ بھی مہ عید
ساقی یہ ہلال رمضاں ہو نہیں سکتا
جوبن سے ہے مسکی ہوئی محرم کا اشارہ
یہ دن وہ ہیں کوئی نگراں ہو نہیں سکتا
جانے میں وہاں آندھی ہے اے آہ رسا تو
کیا اشک رواں سیل رواں ہو نہیں سکتا
دن اور جگہ اور ہو اے داور محشر
انصاف حسینوں کا یہاں ہو نہیں سکتا
دیوانۂ لیلیٰ کو نہ لیلیٰ سے رہا کام
کچھ اور بلا ہے خفقاں ہو نہیں سکتا
جو دام اٹھیں حسن جوانی کے وہ کم ہیں
سودا یہ کسی طرح گراں ہو نہیں سکتا
بت خانے بنا کرتے ہیں کس طرح مساجد
جب نغمۂ ناقوس اذاں ہو نہیں سکتا
دیوانوں کا انداز اڑاتے ہیں عنادل
دیوانے میں یہ رنگ فغاں ہو نہیں سکتا
یہ جان کو میری ہے عذاب آٹھ پہر کا
دل سا بھی کوئی آفت جاں ہو نہیں سکتا
ہیں پیری و طفلی و جوانی کے مزے اور
دنیا سا کوئی اور جہاں ہو نہیں سکتا
بدلے ہوئے ہیں چرخ کے سب چاند ستارے
وہ وصل کی راتیں وہ سماں ہو نہیں سکتا
بننے کو ریاضؔ آپ بنیں کوہ کن و قیس
ہیں ساختہ باتیں خفقاں ہو نہیں سکتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |